جماران نے لکھا: اگرچہ نوفل لوشاتو کا گاؤں ایک چھوٹا اور بہت پرامن گاؤں ہے لیکن ایران کی تاریخ میں یہ عظیم انقلاب کی یاد دہانی ہے۔
یہ گاؤں، جو پیرس کے جنوب مغرب میں 35/ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، امام خمینی (رح) کی 1/ فروری 1979ء کو فاتحانہ واپسی سے پہلے کی آخری رہائش گاہ تھی۔
شاہ کی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ جو نجف میں امام کی سیاسی سرگرمیوں سے خوفزدہ تھی، آخر کار امام 4/ اکتوبر 1978ء کو نجف شہر چھوڑ کر کویت جانے پر مجبور ہوئے، لیکن کویتی حکومت نے بھی ایرانی حکومت کی درخواست پر امام کو روک دیا۔ آخر کار امام خمینی (رح) پیرس روانہ ہو گئے۔
جب امام نے فرانس جانے کا فیصلہ کرلیا تو آپ نے ڈاکٹر یزدی سے ایک بات کہی تھی کہ یہ بھی دوسروں کے ہمراہ کہیں اور وہ یہ کہ وہ لوگ ان کو گروہ کے درمیان اندرونی اختلاف سے دوچار نہ کریں اور اس کے ضمن میں یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ جب پیرس میں جائیں گے تو ان کے لئے مستقل گھر کا بند و بست کیا جائے۔
6/ اکتوبر کو رہبر معظم انقلاب اسلامی پیرس پہنچے اور "کشان" کے محلے میں ایک ایرانی کے گھر ٹھہرے، لیکن اپارٹمنٹ کا محل وقوع، زائرین کا بڑا ہجوم اور دیگر مسائل کی وجہ سے حضرت امام نے اس جگہ کو بدلنے کو کہا۔ ابھی دو دن گزرے تھے کہ ایرانیوں میں سے ایک جناب ڈاکٹر عسکری نے قبول کیا تاکہ امام اپنے گھر میں رہ سکیں جو نوفل لوشاتو میں واقع تھا۔ اس گاؤں میں امام کا قیام تقریباً چار ماہ (116 دن) تک جاری رہا اور بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امام کی پیرس کی طرف ہجرت نے انقلاب کی رفتار میں بہت مثبت تبدیلی پیدا کردی۔
اس خوبصورت گاؤں کے پرانے باشندے، جو نوفل لوشاتو میں اسلامی جمہوریہ کے بانی کی موجودگی کو یاد کرتے ہیں، امام کی رہائشگاه کو آیت اللہ کا گھر کہتے ہیں۔ ان دنوں، فرانسیسی ٹی وی چینل 2 نے نوفل لوشاتو کے لوگوں سے ایک انٹرویو کیا اور [آیت اللہ] کے پڑوس کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو اس پر سب نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
ایک فرانسیسی طالب علم "ندا" نے کہا: "مجھے امید ہے کہ دیگر دربند اقوام کو آیت اللہ خمینی جیسا رہنما ملے۔" تہران روانگی سے قبل امام خمینی (رح) نے فرانس کی حکومت اور عوام کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا اور لکھا:
"بسم الله الرحمن الرحیم، اس وقت، فرانس میں چار ماہ کے پروقار قیام کے بعد، اپنے ملک کی خدمت کے لئے میں یہاں سے روانہ ہونا چاہتا ہوں؛ میں فرانسیسی حکومت کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے مجھے سلامتی اور آزادی اظہار کے ذرائع فراہم کیے اور ان معزز شہریوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے انسان دوستی کے جذبے کے ساتھ ایران کی آزادی اور استقلال میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ مجھے امید ہے کہ میں فرانسیسی حکومت اور لوگوں کی مہمان نوازی اور ان کے آزادی کے احساس کو نہیں بھولوں گا۔ اور میں نوفل لوشاتو کے پڑوسیوں اور باشندوں کو پہنچنے والی پریشانی کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ میرا عذر قبول کریں گے۔"
نوفل لوشاتو کا نام ایران اور فرانس کے تعلقات کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے درج ہے اور ایران کے عوام نے ہمیشہ فرانسیسی عوام کی مہمان نوازی، اسلامی انقلاب کے عظیم رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (رح) کو جو خوش آمدید کہا وہ یاد رہے گا کہ انہوں نے کیا کیا..."
امام کے ایران واپس جانے کی خبر عام ہوتے ہی اس دیہات کے رہنے والے امام کی رہائش گاہ کے سامنے باغ میں اکھٹا ہوگئے۔ اس جکہ کے دو سر برآوردہ افراد تھے جن کو امام اس جگہ کا ملّا کہتے تھے۔ وہ خصوصی طور پر امام کے پاس آئے اور کہا: یہ ایام دنیا کی تاریخ میں لکھے جائیں گے ، ہمارے دیہات میں آپ کے وجود مبارک نے ہمارے دیہات کو تاریخی حیثیت دی اور یہاں کی روحانیت میں اضافہ کیا ہے۔ امام نے وہاں 4/ ماہ رہنے کی وجہ سے ان لوگوں سے معذرت خواہی کی کہ آپ لوگوں کو میری وجہ سے زحمت کا سامنا ہوا ہے۔ مترجم آقا ابراہیم یزدی تھے۔
وہ دنوں، لوگ فیملی کے ہمراہ یا تنہا امام کے کمرہ میں جاتے اور اپنے اندرونی احساسات کا اظہار کرتے تھے اور خداحافظی کرتے تھے اور اس بات سے محزون تھے کہ اس دیہات کے اچھے دن تمام ہوگئے۔ مزہ کی بات یہ ہی کہ امام نے حکم دیا کہ آقائے اشراقی اور آقائے مروارید اس دیہات میں ابھی رک جائیں اور امام کے رہنے کے لئے مکان کی تعمیر کرائیں اور اس کے اخراجات ادا کریں۔
ہر سال انقلاب اسلامی ایران کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر اس مقام پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی مشیر اور فرانس میں ایرانی سفارتخانے کے زیراہتمام ایرانیوں اور دلچسپی رکھنے والوں کا ایک اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے۔