رحلت امام خمینی (رح)
اسلام و انسانیت کے محافظ، دین و شریعت کے پاسدار، ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے، شاہ اور اس کے بڑے بڑے آقاؤں اور سوپر طاقتوں کے خلاف اعتراض کرنے والے اور ان ظالموں، درندوں اور خبیث افراد اور گندے لوگوں کے مظالم اور جرائم کو برملا کرنے والے، اسلامی انقلاب کے رہبر، جمہوری اسلامی ایران کے بانی، عالم و عارف و عارف، فقیہہ و اصولی، فلسفی اور عرفانی، سیاسی بصیرت رکھنے والے انسان حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی (رح) کی رحلت کی تاریخ ہے۔ آپ کا نام سید روح اللہ مصطفوی خاندانی شناخت اور لقب امام خمینی (رح) تھا۔
حضرت امام خمینی (رح) 20/ جمادی الثانیہ سن 1320ق مطابق 24/ ستمبر 1902ء کو ایران کے مرکزی صوبہ کے ایک خمین شہر میں علمی اور ادبی اور اسلامی اور انسانی تہذیب و ثقافت سے لبریز خاندان میں پیدا ہوئے اور 4/ جون 1989ء کو دار فانی سے دار بقا اور جاودانی کی جانب کوچ کرگئے۔
حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی (رح) کی رحلت کے بعد امام خمینی (رح) شاہی ظلم و جابر حکومت کی سیاستوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے لئے آپ کو بے شمار مصائب و آلام اور سختیوں کا سامنا ہوا۔ کبھی گرفتار کئے گئے تو کبھی ملک بدر ہوئے۔ ترکی اور عراق اور اس کے بعد پیرس کے نوفل لوشاتو دیہات میں جلاوطن کئے گئے اس کے باوجود آپ کے عزم و ارادہ میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ انقلاب کو مزید قوت ملی اور آپ کا مقابلہ اور تیز ہوگیا، جہاں رہے وہاں اپنے مقاصد کو عملی کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ آپ نے ایک آن کے لئے بھی اپنے اسلامی اور انسانی مقاصد کو فراموش نہیں کیا بلکہ اسے آگے بڑھانے کے لئے تیزی سے کاربند رہے۔ اس جلاوطنی اور دربدری سے انقلاب کے اساسی مرحلہ میں داخل ہوگئے۔
امام کے پیریس میں قیام کے درمیان مغربی میڈیا میں آپ کے نظریات اور خیالات کے نشر ہونے سے پہلوی حکومت کمزور ہونے لگی اور اس کے ظلم کی بنیاد میں ہلنے لگیں اور آپ کی دقیق اور عاقلانہ قیادت سے ایرانی عوام کا اسلامی انقلاب اور مضبوط نیز شاہ اور شاہی گھرانے کے ایران سے نکلنے کے بعد اسلامی انقلاب اوج پر پہونچ گیا اور کامیابی سے نزدیک ہونے لگا۔
حضرت امام خمینی (رح) نے اپنے اغراض و مقاصد، نظریات اور خیالات نیز لوگوں اور انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے جو بیان کرنا تھا وہ کردیا تھا اور عملی طور پر بھی اپنی اغراض و مقاصد کے تحقق کے لئے سارے اقدامات کردیئے تھے۔ 4/ جون 1989ء کو خداوند عزیز سے ملاقات کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرلیا تھا اور اسی تاریخ کو داعلی اجل کو لبیک کہا اور بارگاہ ملکوتی کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ کی رحلت کی خبر سنتے ہی پوری دنیا میں موجود آپ کے چاہنے والوں اور انسانیت کے دوستداروں اور حق و صداقت کے پیروں کے درمیان غم و الم کی لہر دوڑ گئی، عالم انسانیت سوگ میں ڈوب گیا، ہر طرف نوحہ و ماتم شروع ہوگیا۔ پوری دنیا میں سوگ اور عزا کا ماحول بن گیا۔ مرد، عورت، بوڑھے، جوان اور بچے سبھی آپ کے غم میں عزادار ہوگئے اور آپ کے ملک ایران میں اسلامی انقلاب اور انسانی حیثیتوں کے پاسداروں میں نالہ و شیون اور آہ و بکا کی فضا قائم ہوگئی۔
خداوند رحیم و کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر دور میں اسی طرح کے رہبر اور قائد سے نوازے اور اسلامی پرچم لہرانے کی قوت اور حوصلہ عطا کرے۔ آمین۔