پیر جماران کے انسانی معاشرے پر اثرات، ایک جھلک

پیر جماران کے انسانی معاشرے پر اثرات، ایک جھلک

امام خمینی کے نجف کے گھر کے بارے میں ایک عینی شاہد اور امام کے طالب علم کی زبانی سنا کہ امام کا گھر بہت تنگ تھا

پیر جماران کے انسانی معاشرے پر اثرات، ایک جھلک

تحریر: سید اسد عباس

 

ایران رقبے کے اعتبار سے عالم اسلام کا ایک بڑا ملک ہے، اگرچہ اس کی آبادی نسبتاً کم ہے۔ سولہ لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک اندازے کے مطابق آٹھ کروڑ نفوس آباد ہیں۔ اس ملک کا دارالخلافہ تہران بھی دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ تجریش تہران کے شمال میں ہے، جہاں بلند و بالا عمارتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے محلے بھی ہیں۔ 2016ء میں سفر زیارت کے دوران میں جماران جانے کا اتفاق ہوا۔ تہران کے عظیم الشان شہر میں ایک چھوٹا سا محلہ جس میں شہر کی دیگر عمارتوں کی نسبت چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں، میں ایک سادہ زیست انسان روح اللہ خمینی کا گھر ہے۔ وہ چھوٹی سی گلی اور اس میں موجود مکانات اس وقت آثار امام خمینی کا حصہ بن چکے ہیں، تاہم امام کا حقیقی مکان جسے باہر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، نہایت ہی مختصر تھا۔ داخلی دروازہ، چھوٹا سا صحن اور پھر وہ کمرہ جہاں امام خمینی عموماً وفود سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ اس کمرے کو اصل حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ وہی قالین، وہی تکیے، کمرے کا وہی سامان جو امام خمینی کے استعمال میں تھا۔ یہ گھر کسی بھی حاکم کا گھر نہیں لگتا بلکہ کسی فقیر کا آستانہ لگتا ہے، جہاں وہ فقیر اپنی زندگی کے روز و شب بسر کر رہا تھا۔ اس محلے اور مکان کی حالت دیکھ کر انسان امام خمینی کی شخصیت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اتنی عظیم الشان ریاست کی حکومت اور اختیار ہونے کے باوجود اس قدر سادہ بود و باش اور رہائش اس بات کی علامت ہے کہ نفس خمینی دنیا کی آلائشوں سے پاک رہا۔

 

امام خمینی کے نجف کے گھر کے بارے میں ایک عینی شاہد اور امام کے طالب علم کی زبانی سنا کہ امام کا گھر بہت تنگ تھا اور اتنا خستہ تھا کہ اگر کوئی شخص چھت پر چلتا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی چھت زمین پر آگرے گی، لیکن اگر اس شخصیت کے اسلامی نیز ایرانی معاشرے پر اثرات کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر سو اسی ہستی کا جلوہ ہے۔ نائجیریا میں اسلامی تحریک کے بانی اور راہنما شیخ ابراھیم زکزاکی اسی پیر جماران کا نام سن کر عازم ایران ہوئے اور یہاں کے ہی ہوکر رہ گئے۔ شیخ زکزاکی نے نائجیریا واپس جا کر اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی اور چند برسوں میں نائجیریا میں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا، جس نے نہ صرف سماجی فلاح کے کئی منصوبوں کا آغاز کیا بلکہ عوام کو وہ سیاسی شعور اور جرات عطا کی، جس کے سبب آج وہ استعمار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عراق کے معروف عالم دین شہید باقر الصدر سے کسی نے سوال کیا کہ امام خمینی اور ان کی تحریک کی حمایت کے بارے آپ کا کیا خیال ہے تو انھوں نے فرمایا امام خمینی میں یوں گم ہو جاؤ جیسے وہ اسلام میں کھو چکے ہیں۔ یہ جملہ باقر الصدر جیسے عظیم فلسفی اور راہنما کی جانب سے امام خمینی کی شخصیت کے لئے سب سے بڑا خراج تحسین ہے۔

 

امام خمینی کی سیاسی فکر نے لبنانی معاشرے پر بھی انتہائی دوررس اثرات مرتب کئے۔ سید موسٰی صدر جو مکتب خمینی کے پروردہ تھے، انہوں نے لبنانی معاشرے میں فرقہ وارانہ جنگوں کا نہایت صبر اور بصیرت سے مقابلہ کیا اور لبنانی معاشرے میں ایک نجات دہندہ کے عنوان سے سامنے آئے۔ سید موسٰی صدر اور ان کے ساتھیوں کا لگایا ہوا پودا آج لبنان میں حزب اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ارتقاء کی منازل طے کرتے کرتے لبنان کی پارلیمنٹ اور اہم سیاسی جماعتوں کے درجے تک پہنچ چکا ہے۔ ہزاروں خاندانوں کی کفالت، شہداء کے گھرانوں کی دیکھ بھال، صحت، تعلیم، فلاح و بہبود اور روزگار کے حصول میں اس تنظیم کا کردار اس کے علاوہ ہے۔ یہ وہی لبنان ہے، جہاں مکتب تشیع کے پیروکاروں کو دمدار جانوار کہا جاتا تھا، آج یہی لوگ لبنانی قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اسی گروہ نے اسرائیل کو لبنان سے نکل جانے پر مجبور کیا اور استعمار و استکبار کی نظروں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔

 

یمن میں سید حسین بدر الدین الحوثی نے امام خمینی کو متعارف کروایا۔ حسین بدر الحوثی زیدی المسلک ہونے کے باوجود اپنے والد سید بدر الدین الحوثی کے ہمراہ ایران تشریف لائے اور ایران میں اپنے قیام کے دوران میں انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی کی شخصیت اور نظریات کو قریب سے دیکھا۔ سید حسین بدر الدین نے یمن جانے کے بعد ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی، اپنے اکثر خطابات میں وہ امام خمینی کی شخصیت کا تذکرہ کرتے تھے، جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ پیر جماران نے ان کی ہستی پر کس قدر اثرات مرتب کئے۔ سید حسین بدرالدین کا لگایا ہوا پودا آج انصار اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یمنی عوام کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار اداکر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کرگل کے ایک عالم پر امام خمینی نے ایسا سحر کیا کہ انہوں نے اپنے علاقے میں آکر امام خمینی کے نام سے ہی ایک ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، یہ عالم دین شاید امام سے ملے بھی نہ ہوں۔ کرگل کا یہ ٹرسٹ تعلیم، صحت، روزگار اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں اپنی مثال ہے، جس نے کرگل کے پسماندہ عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور اب اس علاقے کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان خط امام خمینی پر چلتے ہوئے اپنے معاشرے اور امت اسلامیہ کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

 

پاکستان میں فرزند خمینی کا خطاب پانے والے سید عارف حسین الحسینی بھی امام خمینی کے سحر میں مبتلا افراد میں سے ایک ہیں۔ فرزند امام نے پاکستانی معاشرے میں خط امام پر چلتے ہوئے سیاسی تحریک کا آغاز کیا۔ افسوس انہیں وقت نے مہلت نہ دی اور وہ اپنا کام مکمل نہ کرسکے۔ سعودیہ کے معروف اور جری عالم دین شیخ نمر باقر النمر کو امام خمینی اور ان کی انقلابی فکر سے وابستگی کے سبب گرفتاری، تشدد اور پھر تختہ دار پر جھولنا پڑا۔ دنیا میں آج بھی ہزاروں ایسے انسان موجود ہیں، جو پیر جماران سے قلبی طور پر وابستہ ہیں، ان کی تحریک، ان کا بیانیہ، ان کا طرز فکر پیر جماران کی شخصیت، کردار اور فکر کا ہی ایک عکس محسوس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں چراغ روشن ہوا ہو، وہاں نور کی بہتات ہوگی۔ ایران میں پیر جماران کے عشاق کا سلسلہ کافی طویل ہے۔ اس سادہ زیست انسان کی شخصیت نے ایرانی قوم کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ عیش و عشرت کے دلدادہ، پرتعیش بود و باش کے حامل روایتی مسلمان پیر جماران کے گرد یوں جمع ہوگئے، جیسے پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ ساواک کا جبر و تشدد، قتل و غارت، اقتصادی پابندیاں، آٹھ سالہ جنگ، لاکھوں قربانیاں اور رکاوٹوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس قوم کے عزم و ہمت کو کم نہ کرسکا۔ خمینی بت شکن کے جملوں نے ایرانی قوم کے دلوں میں موجود خوف، لالچ، تعصب، ہوس کے بتوں کو پاش پاش کر دیا اور ایک ایسی قوم معرض وجود میں آئی، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

 

کسی ایک شخص کا انسانی معاشرے کو اس قدر متاثر کرنا بہت کم دیکھا گیا ہے، امام خمینی نے امت مسلمہ سے یوم القدس منانے کو کہا تو آج دنیا بھر میں مسلمان امام خمینی کی رحلت کو کئی برس گزرنے کے بعد بھی یہ دن ایک مذہبی فریضہ کے طور پر مناتے ہیں۔ پیر جماران واقعی بت شکن ہیں، جن کے جملوں نے انتہائی طاقتور بتوں کو خواہ وہ انسانی نفس کے بت تھے یا معاشرے کے لات و منات کو پاش پاش کر دیا۔ قوموں کی تربیت اور معاشرہ سازی صدیوں کی محنت شاقہ کی متقاضی ہوتی ہے، پھر بھی ضروری نہیں کہ مطلوبہ نتائج کو حاصل کئے جاسکے، تاہم پیر جماران نے یہ کام الفاظ سے کر دکھایا۔ ان کا لگایا ہوا پودا روز افزوں ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک کلی گرتی ہے، اس کی جگہ دسیوں نئی کونپلیں جنم لے لیتی ہیں۔ جس سے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیر جماران کے الفاظ کوئی عام لفظ نہ تھے۔ کلمات امام کا بیج جس زرخیز زمین پر گرا، وہاں انسانوں کی ایسی فصل برآمد ہوئی، جو آج بھی انسانی معاشروں کے لئے حیرت کا سامان مہیا کرتی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اسلامی معاشرہ اور انسانی تہذیت اس معاشرے جیسی نہیں رہی، جس میں پیر جماران نے آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔

 

میرے خیال میں یہ کسی بھی انسان کی عظمت کی بین دلیل ہے کہ اس نے اپنے معاشرے کو ایک نئی سمت اور روح بخشی۔ روح اللہ ہی ایسا کام انجام دے سکتا تھا اور امام خمینی فی الحقیقت روح اللہ کے حامل تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیر جماران کے جملے فقط اپنوں کے لئے ہی پرتاثیر نہ تھے، ان جملوں نے دشمنوں کے دل بھی دہلا کر رکھ دیئے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دنیا بھر کی استعماری طاقتیں اس بزرگ کے کہے ہوئے الفاظ کا توڑ کرنے کے لئے دہائیوں سے اپنا سرمایہ اور وسائل صرف کر رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال صہیونی ریاست کے دلوں میں بیٹھا ہوا یوم القدس کا خوف ہے، جسے روکنے کے لئے مختلف حیلے اور حربے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ کبھی خودکش دھماکے کروائے جاتے ہیں تو کہیں ریاستی مشینری کو استعمال کرکے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے، کہیں دہشت گردی کا الزام لگتا ہے تو کہیں فرقہ واریت کا لیبل۔ لیکن امام خمینی کے کہے ہوئے الفاظ اور ان کا اثر استعمار و استکبار کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔

ای میل کریں