امام خمینی (رح) کے پیغامات ایران پہونچانے کی کیفیت

امام خمینی (رح) کے پیغامات ایران پہونچانے کی کیفیت

احتجاج کی خبر جاننے کے لئے تہران کی خبر رساں ایجنسی ہمارے اختیار میں تھی

امام خمینی (رح) کے پیغامات ایران پہونچانے کی کیفیت

 

ہمارے پاس نوفل لوشاتو میں ٹیلیفون کی سہولت نہیں تھی۔ آقائے عسکری کے مکان میں فون نہیں تھا۔ بات ہوئی تھی کہ وہ ایک ٹیلیفون کی درخواست کریں اور وہ فون ہمارے حوالہ کردیں کہ اس میں بھی تقریبا ایک ہفتہ لگ گیا۔ اس لئے ہم ابتدا میں اقا غضنفرپور کے ٹیلیفون سے پیغام بھیجتے تھے اور لوگوں کے جواب بھی دیتے تھے۔ جب نوفل لوشاتو میں ہمارا مستقل فون ہوگیا اور آخر تک ہمارے ہی اختیار میں تھی۔ پیرس سے آنے والے طالبعلم ائیرپورٹ سے فون کرتے اور کہتے تھے ہم لوگ کہاں آئیں تو ہم رہنمائی کرتے اور ایڈریس دیتے تو وہ لوگ یہاں آکر مہمان ہوتے تھے۔

احتجاج کی خبر جاننے کے لئے تہران کی خبر رساں ایجنسی ہمارے اختیار میں تھی۔ اس زمانہ میں اکثر ادارے اعتصاب سے ملحق ہوچکے تھے۔ لیکن ہم پیرس جانے کے دوسری ہی رات سے آقا ہادی غفاری کی مدد سے تہران اکسچینج میں وہاں کے چند کارکنوں کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ اس اعتبار سے ایک شفٹ میں 5/ خواتین اور ایک شفٹ میں 5/ مرد ایرانی انقلاب کے بارے میں اخبار میں شائع ہونے والے تمام مطالب کو تہران کے وقت سے 12/ بجے رات کو پیرس کے وقت کے مطابق ڈھائی بجے ہمارے لئے پڑھیں گے۔ میں ٹیلیفون اٹھانے کا ذمہ دار تھا۔ ان کے مطالب کو ٹیپ کرتا اور امام کی خدمت میں لے جاتا تھا۔

اس طرح سے امام کی تقریریں اور پیغام بھی ایران بھیجتے تھے۔ مشہد میں ہمارا رابطہ امام کے اس شہر میں ایک نمائندہ سے تھا، سب سے پہلا اعلانیہ ان کے لئے پڑھا۔ لیکن جب میں نے ان کا نمبر لیا کہ دوبارہ اعلانیہ پڑھوں گا تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور ان کے بیٹے نے اٹھایا۔ جب میں نے ان سےکہا کہ ٹیپ آمادہ کرو تا کہ دوسرا اعلانیہ پڑھوں گا تو انہوں نے کہا: حاج آقا آپ کا پڑھا ہوا پہلا اعلانیہ ہی ساواک سن رہی تھی۔ گزارش کرتا ہوں کہ کسی اور کے لئے پڑھیں۔ میں نے فورا فون کاٹ دیا اور مسجد کرامت کا نمبر حاصل کیا اور مسجد کرامت میں ایک گروہ تھا جو آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ سرگرم تھا اور اس گروه کے سرگرم اور فعال شخص آقا غنیان تھے۔ میں نے ان کو فون کیا اور کہا کہ میں امام کا اعلانیہپڑھنا چاہتا ہوں لہذا آپ ٹیپ آمادہ کریں۔ وہلوگ اعلامیہ ٹیپ کرنے کے بعد اسے لکھ کر نشر کرتے تھے۔

 

ای میل کریں