اسلام ٹائمز۔ رضاکار فورس (بسیج) کی تشکیل کے دن اور ہفتہ بسیج کی مناسبت سے بڑی تعداد میں رضاکاروں نے ہفتہ کی صبح امام خمینی امام بارگاہ میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے بسیج کے مقام و مرتبے کو ایک فوجی ادارے سے کہیں ارفع و اعلی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ بسیج ایک ثقافت ہے، بسیجی ہونا، گمنام مجاہدوں کا کلچر ہے، بے لوث طریقے سے کام کرنے اور خطرہ مول لینے والے مجاہدوں کا کلچر ہے، بسیج کا مطلب خوفزدہ نہ ہونا ہے، سبھی کی خدمت، ملک کی خدمت اور ایثار سے کام لینا ہے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں رضاکاروں کی دیگر خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بسیجی ہونا یعنی کسی مظلوم کو ظلم سے رہا کرانے کے لئے خود ڈھال بن کر ظلم برداشت کرلینا، ان حالیہ واقعات میں مظلوم رضاکاروں نے ظلم سہے ہیں تاکہ ہنگامہ آرائی کرنے والے کچھ غافل، جاہل یا بکے ہوئے افراد قوم پر ظلم نہ کر سکیں، وہ خود ظلم برداشت کرتے ہیں تاکہ دوسروں پر ظلم نہ ہونے دیں۔
انھوں نے اسی طرح اسلامی انقلاب کے دوران رضاکارانہ جذبات میں اضافہ ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ طاغوتی (سرکش شاہی) حکومتوں کے زمانے میں بھی رضاکاروں کو پروان چڑھانے کے جذبات پائے جاتے تھے جنھیں یا تو اغیار کے ذریعے یا خود ظالم اور بدعنوان حکومت کے ذریعے کچل دیا جاتا تھا لیکن انقلاب کے دوران سب سے پہلے یہی جذبہ بڑھا پھر امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بسیج کو روح و جان عطا کی اور یہ استعداد اور توانائی زندہ ہوگئی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی جانب سے بسیج کو "شجرۂ طیبہ" بتائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے، اس شجرۂ طیبہ کی بنیادی خصوصیات بیان کیں۔ انھوں نے کہا کہ رضاکاروں کی موجودگی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انقلاب کی تازگی اور اس کے زندہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ بغیر کسی توقع کے، بغیر کسی نام و نمود کے، بغیر کسی دکھاوے کے بے لوث طریقے سے جہادی کام کا جذبہ، ملک میں پیشرفت پیدا کرتا ہے، رضاکار جو کام بھی کرتا ہے، اس میں روحانیت کے عنصر کو نمایاں کردیتا ہے اور وہ کام کے ساتھ ساتھ، معنویت پر بھی توجہ دیتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں مغربی ایشیا کے خطے پر یورپ اور امریکا کی خاص توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دو عالمی جنگوں کے بعد مغربی سامراج، پہلے یورپ اور پھر امریکا نے اس علاقے کے سلسلے میں ایک خاص رخ اختیار کیا۔ انھوں نے مغربی ایشیا کے سلسلے میں یورپ اور امریکا کے اس خاص رخ کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی صنعتوں کے پہیوں کے چلتے رہنے کا سب سے اہم عنصر تیل ہے اور دنیا بھر میں تیل کا اہم مرکز یہی علاقہ ہے، مغربی ایشیا، مشرق اور مغرب کا سنگم ہے اور اسی لئے مغربی سامراج نے مغربی ایشیا کے علاقے پر خاص توجہ مبذول کر رکھی ہے اور اسی لیے انھوں نے غاصب صیہونی حکومت کو بھی وجود عطا کیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونی حکومت کے معرض وجود میں آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغربی سامراج نے، اس علاقے پر مسلط ہونے، یہاں جنگ شروع کروانے، جنگ مسلط کروانے، اسے بڑھانے اور لوٹ مار کرنے کے لیے صیہونی حکومت کو وجود عطا کیا اور اسے اس علاقے میں پہلے یورپ کا اور پھر امریکا کا فوجی ٹھکانہ بنا دیا۔
انھوں نے کہا کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں ایک جگہ ہے جو سب سے اہم ہے اور وہ ایران ہے کیونکہ اس کی دولت و ثروت یہاں کے دوسرے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ تیل، گيس، قدرتی ذخائر بہت زیادہ ہیں اور ساتھ ہی اس کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، یہ سب سے حساس علاقہ ہے، اسی لئے انھوں نے ایران پر سرمایہ کاری کی، پہلے انگریز آئے اور انھوں نے جہاں تک ممکن تھا یہاں اپنا اثر و نفوذ پیدا کیا اور پھر امریکی آئے اور خود کو ایران پر مسلط کر دیا، یہ صورتحال انقلاب سے پہلے کی تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسی کے ساتھ کہا کہ اسلامی انقلاب نے اچانک ہی ان کے سارے خوابوں کو چکناچور کردیا، مغرب والوں کی سوچ یہ ہے کہ ایران کی اسٹریٹیجک گہرائی عراق، شام، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ جیسے چھے ملک تھے اس لئے انھیں پہلے ان چھے ملکوں کی حکومتوں کا تختہ پلٹنا چاہیئے، وہ ایران کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار تھے لیکن اسلامی جمہوریہ کی ایک عظیم اور کارآمد فورس کے ذریعے ان کی سازش ناکام ہوگئی اور اس عظیم فورس کا مظہر اور پرچم الحاج قاسم سلیمانی نام کا ایک شخص تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس تناظر میں مغربی ایشیا خاص طور پر ایران کی جغرافیائی اور جیو پولیٹیکل خصوصیات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اسلامی انقلاب نے ہمسایہ اقوام کے دلوں کو متغیر کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ ایران پر حملے سے پہلے، اس کے ان ہمسایہ ممالک کو مفلوج کر دیں جو اس کی اسٹریٹیجک گہرائی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سازش کو خود امریکیوں نے سنہ 2006ء میں برملا کر دیا اور کہا کہ اب اس کے بعد ایران کا رخ کرنا چاہیئے۔ انھوں نے دوسرے اور تیسرے ایٹمی معاہدے پر دشمن کے اصرار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے ایٹمی معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران پوری طرح اس علاقے سے نکل جائے اور اپنی علاقائی پوزیشن کو ختم کر دے جبکہ تیسرے ایٹمی معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران یہ وعدہ کرے کہ وہ کوئی بھی اہم اسٹریٹیجک ہتھیار نہیں بنائے گا، اس کے پاس ڈورن نہیں ہوں گے، میزائیل نہیں ہوں گے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن کا سب سے اہم طریقہ کار جھوٹ بولنا اور من گھڑت باتیں پیش کرنا ہے۔
انھوں نے کہا اس وقت دشمن جو سب سے اہم کام کر رہا ہے وہ دروغ گوئی ہے۔ دشمن کے انہی ٹی وی چینلوں یا سائبر اسپیس پر جھوٹی خبریں اور جھوٹے تجزیے پیش کئے جاتے ہیں، جھوٹے ہلاک شدگان کا نام لیا جاتا ہے، جان لیجئے کہ دشمن آج جھوٹ کی بنیاد پر کام کر رہا ہے، جب آپ کو یہ پتہ چل گيا تو پھر آپ کے کندھوں پر ذمہ داری آ جاتی ہے، تشریح کے جس جہاد کا میں ذکر کرتا رہتا ہوں، اس کی ایک جگہ یہی ہے۔ رہبر انقلاب نے دشمن کی جانب سے غفلت کے حربے اور عوام نیز میڈیا کی توجہ فٹبال کے ورلڈ کپ کی طرف ہونے سے ملک کے عہدیداروں کو منتبہ کرتے ہوئے ملک اور بیرون ملک پر توجہ دینے پر تاکید کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے لئے ملک کے اطراف کے حالات اہم ہیں، ہمارے لیے مغربی ایشیا کا خطہ بھی اہم ہے، قفقاز کا علاقہ بھی اہم ہے اور مشرقی علاقے بھی اہم ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں فٹبال ورلڈ کپ میں ویلز پر ایرانی ٹیم کی حالیہ فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل نیشنل ٹیم کے کھلاڑیوں نے قوم کا دل خوش کردیا، ان شاء اللہ خداوند عالم انہیں بھرپور خوشی عطا کرے۔