ہفتہ کتاب اور کتاب پڑھنے کی تقریب (15 نومبر بروز منگل) حسینیہ جماران میں، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین علی کمساری نے خطاب کیا اور احمد مسجد جامعی، سابق وزیر ثقافت کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔
حجت الاسلام و المسلمین علی کمساری نے تقریب کے دوران کہا: ثقافتی ذرائع ابلاغ کے تمام وسائل میں سے ایسا لگتا ہے کہ تمام نئے ذرائع ابلاغ کی پیدائش کے باوجود کتاب ثقافت اور علم کی ٹرانسفر اور منتقلی کا سب سے مؤثر اور سنجیدہ ذریعہ کتاب ہے، شاید اس پلٹ فورم کے بہت سارے میڈیا کا فاونڈیشن کتاب ہو۔ یعنی اگر کتاب نہ ہو تو پیغام پہنچانے میں بہت سے دوسرے اوزار بانجھ ہی رہیں گے۔
موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کے سربراہ نے تاکید کی: اس حقیقت کے باوجود کہ ہم علم یا نظریہ کے بحران سے دوچار ہیں اور زیادہ تر پروڈکشنز کاپی پیسٹ بن چکی ہیں، لیکن کتاب اب بھی ایک قیمتی مقام رکھتا ہے اور فطری طور پر ہم جو کہ ترویجی، تبلیغی، تحقیقی اور دستاویزاتی ادارے ہیں تو ہمیں چاہیئے اس کے ذریعہ کی طاقت پر زور دینا چاہیے۔ نئے دور میں ہم جدید اور پروموشنل اقدامات پر زور دیتے ہیں لیکن ہمارے کام کی بنیاد اب بھی کتاب ہے۔
انہوں نے یاد دلایا: ان تین دہائیوں کے دوران موسسہ میں دوستوں نے جو کام کیا ہے اور ان سالوں کے دوران موسسہ میں شائع ہونے والے تقریباً ایک ہزار کتابوں کے عنوانات ہیں، ایک بہت ہی بھرپور اور اہم سرمایے ہیں کہ ہمیں ان کو "عوامی ثقافت" میں تبدیل کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی کمزوریوں میں سے ایک ’’مطالعہ کرنے کی کمزوری‘‘ ہے۔ اعداد اور ایسٹیٹکس امید افزا نہیں ہیں اور ہم اپنے خاندان اور دوستوں کی صورتحال میں دیکھ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر ہمارے ملک میں فی کس مطالعہ میں بہت کمی آئی ہے اور یہ فطری ہے کہ جب یہ ایک خاص مسئلہ بن جائے تو ہمیں اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔
کمساری نے کہا کہ: اگر ہم فرض سمجھ کر کام کریں تو ہمیں اپنی زندگی کی آخری دم تک کام کرنا چاہیئے۔ امام (رح) نے ہمیں یہی طریقہ سکھایا ہے۔ اس صورتحال میں ہماری ذمہ داری اور مشن بہت سنگین ہے۔ ہم تمام ثقافتی، تربیتی اور تعلیمی اداروں نے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا نہیں کی۔ اگر ہم نے اچھا کام کیا ہوتا تو آج سماجی بحران نہ دیکھنا پڑتا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ثقافتی اور اخلاقی تعلیم میں کتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ آج ہم ان مسائل کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ صرف عوام پر الزام نہ لگائیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے کام کا نتیجہ یہ ہے؛ جب کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایک قدیم معاشرے کو جاہلیت اور بے حیائی سے بھرا ہوا معاشرہ میں مبعوث ہوئے لیکن ایک اخلاقی معاشرہ فراہم کیا اور سلمان اور ابوذر کو عرش تک پہونچائے۔ معاشرے کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کا نقطہ نظر ڈاکٹر جیسا تھا نہ کہ پولیس والا۔ قرآنی آیت کہتی ہے کہ لوگوں نے اس کی رحمانی اخلاق کی وجہ سے اس کی طرف پلٹ گئے۔ لہذا لوگ میری کارکردگی کو دیکھتے ہیں لیکن میری تقریر اور تحریر کو نہیں دیکھتے۔ ہماری کارکردگی کیسی رہی ہے؟
موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کے سربراہ نے حجاب کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: ہم صرف منفی رویہ سے لوگوں کو حجاب کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے کام کو حل کرنے کے لیے اس طرح کیا ہے اور لوگوں کو قائل کرنے اور راضی کرنے کے لیے نہیں کیا۔ اگر ہم اس زاویے سے آگے بڑھیں گے تو ہم عوام کی گرہ کھولنے کے لیے کام کریں گے، نہ کہ اعداد و اسٹیٹکس بنانے کے لیے۔ بے شک، ہمیں اپ ٹو ڈیٹ کام کرنا چاہیے۔ آج ہمارے سامعین مختلف ہیں۔ بظاہر، بعض اوقات لوگ جھٹکے کے سوا نیند نہیں اٹھتے۔ تحقیق اور کتاب کے میدان میں بھی ہمیں نئے طریقوں اور آلات پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امام خمینی (رح) کی فکر میں دو طرح کے رویے ہیں؛ کہا: ہمیں اس سمت کی طرف جانا چاہیئے جہاں آج ہمارے معاشرے کی ضروریات کا جواب دیا جائے گا۔ معاشرہ اس سوچ کی طرف بڑھتا ہے جہاں اسے اس سوچ میں درد کا علاج نظر آتا ہے اور صرف سلیقہ و ذائقہ کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتا۔ بہرحال! امام نے چار دہائیوں میں اس معاشرے کے درد کو پہچانا اور امام(رح) کی سوچ نے اس کا جواب دیا ہے۔ کیا وہ درد آج بھی موجود ہے؟ اگر اہداف شیڈولڈ ہیں تو ہمیں اس درد اور علاج کی پیشکش کرنی چاہیے۔ میری رائے میں، ہم عوامی ذائقہ پر توجہ نہ دینے کی غلطی سے نمٹ رہے ہیں۔ فخر کرنا درست نہیں، لیکن ہمیں عوامی ذائقہ سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے۔
کمساری نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں کہا: ہمارے دوست، امام خمینی (رح) کی کتاب "صحیفہ" کی تدوین میں مصروف ہیں، اور غالباً یہ اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی، اور غالباً کتاب صحیفہ میں تین جلدوں کا اضافہ کیا جائے گا۔ اور وہ دستاویزات کے شامل ہیں جو کتاب کی اشاعت کے بعد ہمارے پاس آئیں۔ ایک اور چیز جو ہم نے شروع کی ہے وہ "ویکی امام" بحث ہے جو قم میں مستقل طور پر کام ہو رہا ہے اور امام خمینی (ص) کی کتاب "دانشنامہ (انسائیکلوپیڈیا)" اس کی بنیاد ہوگی۔