حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سابق صدر شہید رجائي اور سابق وزیر اعظم شہید باہنر کی شہادت کی برسی کے موقع پر اور ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان نے منگل کی صبح امام خمینی امام بارگاہ میں رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ہفتہ حکومت منانے کے دو بنیادی پہلو حکومت کی کارکردگي کا جائزہ لینا اور سنہ انیس سو چونسٹھ کے اہم واقعات کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک سال میں حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے معیشت کے مسئلے کو اہم ترجیح قرار دیا اور ساتھ ہی پنی اہم سفارشات میں کہا: تمام واقعات و حوادث میں عوام ہی، انقلاب کی سرگزشت کے اصلی ہیرو رہے ہیں اور یہ حقیقت، سبق آموز اور عبرت آموز ہونے کے ساتھ ہی تمام حکام اور عہدیداروں کو یہ بتاتی ہے کہ اس قوم کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ کچھ حقائق ہیں جنہیں معاشرے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ نے ان حقائق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کی عظمت کے سامنے سامراج کی شکست، عالمی منہ زور طاقتوں کی لگاتار دشمنی، ملک اور دارالحکومت کے نہتے عوام پر صدام کے فضائی حملے، پورے ملک میں دہشت گردوں کی ریشہ دوانیاں اور انقلاب کے ابتدائي برسوں کی بدامنی، اسی طرح مقدس دفاع کے لازوال کارنامے اور دشمنوں سے مقابلے کے دیگر محاذوں میں عوام کا فیصلہ کن کردار، جلوسوں اور مختلف پروگراموں میں عوام کی بھرپور اور قابل تحسین شرکت وہ اہم حقائق ہیں جنہیں یاد رکھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں موجود حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: اس حکومت کی سب سے اہم کامیابی، عوام میں امید اور اعتماد کو زندہ کرنا ہے اور عوام دیکھ رہے ہیں کہ حکومت، میدان کے بیچ میں اتر کر کام اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش اور ان کی خدمت کر رہی ہے اور اس حقیقت نے عمومی امید اور اعتماد کو بڑی حد تک بحال کر دیا ہے۔
انھوں نے حکومت کے صوبائي دوروں کو قابل تعریف اور اہم موضوع بتایا اور کہا: حکومت کے پہلے سال میں پورے ملک میں دور افتادہ اور محروم علاقوں سمیت اکتیس دورے انجام پائے ہیں، کاموں پر زمینی سطح پر نظر رکھی گئي ہے اور عوام کے ساتھ گہری یکجہتی پیدا ہوئي ہے جو حکومت کی دیگر کامیابیوں میں شامل ہے۔
انھوں نے عوام کے درمیان صدر مملکت اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی براہ راست آمد و رفت کو متعدد برکات و اثرات کا حامل بتایا اور کہا: عوامی حکومت کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ وہ عوام کے درمیان جائے بلکہ صحیح پروگرام تیار کر کے اور مختلف آراء و نظریات سے استفادہ کر کے معاشی اور سیاسی میدانوں سمیت مختلف میدانوں میں عوام کی شراکت کی راہ ہموار کی جانی چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی دیگر کامیابیوں کی بات کی جائے تو معاشرے کو بیرون ملک کئے جانے والے فیصلوں اور اقدامات کے انتظار میں بیٹھے رہنے کی حالت سے باہر نکالا، ملک کو مشروط باتوں کے جال سے خارج کیا اور ملک کی اندرونی صلاحیتوں کو اہمیت دی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بعض لوگوں کا یہ سوچنا ہے کہ ہمیں فلاں ملک سے ضرور رابطہ قائم کرنا چاہیے تاکہ ہماری مشکلات دور ہو سکیں، اس طرح کی سوچ ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ملک کے مسائل کو دوسرے ممالک کے فیصلوں سے مشروط کرنا اور انھیں دوسروں کے انتظار میں روکے رکھنا، بری چیز ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ حالات میں، ملک کی بنیادی ترجیح، معیشت کا مسئلہ ہے، پیداوار کو ملک کی معیشت کا سب سے بڑا عنوان قرار دیا۔
انھوں نے یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد پیدا ہونے والے غذائي بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، فوڈ سیکورٹی کے مسئلے کو بہت اہم بتایا اور گیہوں جیسے بنیادی ضرورت کے غلات میں خود کفیلی کی ضرورت پر مبنی اپنی مسلسل پچھلی سفارشوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا: فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ، پہلے درجے کا مسئلہ ہے جس کی طرف سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی، نائب صدر محمد مخبر اور کابینہ کے بعض ارکان نے رپورٹیں پیش کر کے حکومت کی کارکردگي اور اقدامات پر روشنی ڈالی۔