اسلام ٹائمز۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے وفد کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آيت اللہ خامنہ ای نے دونوں ملکوں کے تعاون خاص کر تجارتی تعاون میں فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صیہونی حکومت کو اسلامی ممالک کے درمیان اختلاف کی اہم وجہ بتایا۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکا اور غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کی زبردست پیشرفت کو نہیں روک سکتے۔ انہوں نے شام کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ شام کی ارضی سالمیت بہت اہم ہے اور شمالی شام پر کسی بھی قسم کا فوجی حملہ قطعی طور پر ترکی، شام اور پورے خطے کے لئے نقصان دہ اور دہشت گردوں کے لئے سود مند ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور ترکی کے اقتصادی لین دین اور تعاون کی سطح اور معیار کو موجودہ گنجائشوں سے بہت کم بتایا اور کہا کہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت کے مذاکرات میں حل ہونا چاہیئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امت اسلامی کی عزت و عظمت کا دار و مدار بےبنیاد اختلافات کو نظر انداز کرنے اور تفرقہ ڈالنے والی سازشوں کے مقابلے میں ہوشیاری پر ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خطے میں اختلاف اور دشمنی پیدا ہونے کا ایک سبب غاصب صیہونی حکومت ہے اور امریکہ بھی اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بتایا اور کہا کہ صیہونی حکومت کی جانب بعض حکومتوں کے جھکاؤ کے باوجود، قومیں اس حکومت کے خلاف ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا اور صیہونی حکومت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے، آگے کی جانب فلسطینیوں کے بڑھتے قدم کو آج امریکا، صیہونی حکومت اور کوئي بھی دوسری طاقت روک نہیں سکتی اور نتیجہ فلسطینی عوام کے حق میں ہی ہوگا۔
انہوں نے شام کی ارضی سالمیت کو بہت اہم بتایا اور شمالی شام پر فوجی حملے کے سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے کہی جانے والی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام قطعی طور پر شام کے لئے بھی نقصان دہ ہے، ترکی کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور پورے خطے کے لئے بھی نقصان دہ اور اس کی وجہ سے شام کی حکومت کی جانب سے جس سیاسی اقدام کی توقع ہے، اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوپائے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ترکی کے صدر کی جانب سے دہشت گردوں سے نفرت کے اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن شام پر فوجی حملہ دہشت گردوں کے حق میں ہوگا اور یقینا دہشت گرد بھی صرف ایک گروہ تک محدود نہیں ہیں۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ترک صدر کی جانب سے دہشت گرد گروہوں سے لڑائی کے لئے ایران سے تعاون کی درخواست کے جواب میں کہا کہ دہشت گردی سے لڑائی میں یقینی طور پر ہم آپ سے تعاون کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہم ترکی اور اس کی سرحدوں کی سیکورٹی کو اپنی سیکورٹی سمجھتے ہیں، آپ بھی شام کی سیکورٹی کو اپنی سیکورٹی سمجھئے، شام کے مسائل کو مذاکرات سے حل کرنا چاہیئے اور ایران، ترکی، شام اور روس کو بات چیت کرکے اس مسئلے کو ختم کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح قرہ باغ کے آذربائیجان میں دوبارہ الحاق پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران اور آرمینیا کی سرحد کو بند کرنے کی کوئی سازش ہوئی تو اسلامی جمہوریہ ایران اس کی مخالفت کرے گا کیونکہ یہ سرحد، رابطے کا کئی ہزار سال پرانہ راستہ ہے۔ انہوں نے خطے کے تمام مسائل میں ایران اور ترکی کے تعاون میں اضافے کو فائدہ مند اور ضروری قرار دیا اور کہا کہ ہم نے ہمیشہ داخلی مسائل اور مداخلتوں کے مقابلے میں آپ کی حکومت کا دفاع کیا ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا، ہم دشوار حالات کے ساتھی ہیں اور ترکی کی مسلمان قوم کے لئے دعاگو ہیں۔
اس ملاقات میں جس میں ایران کے صدر ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے عید الاضحی اور عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد اور ایران اور ترکی کی یکجہتی میں اضافے کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ ایران پر ظلم کے مقابلے میں ترکی کبھی بھی خاموش نہیں رہا ہے اور تمام میدانوں میں ایران اور ترکی کی اخوت میں فروغ آنا چاہیئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہم ہمیشہ ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کے مخالف رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کے خلاف رہیں گے۔ رجب طیب اردوغان نے مزید کہا کہ ہم ایٹمی معاہدے سے ایران کی توقعات کی حمایت اور ایران میں سرمایہ کاری کے لئے ترک کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ترکی کے صدر نے برسوں سے دہشت گردوں سے ایران اور ترکی کی لڑائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام میں ایسے دہشت گرد گروہ ہیں جنہیں جرمنی، برطانیہ، فرانس اور خاص طور پر امریکا کی جانب سے بہت زیادہ ہتھیار مل رہے ہیں۔ طیب اردوغان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ شام کی ارضی سالمیت کے بارے میں ترکی کا موقف واضح ہے، کہا کہ شام کی حکومت سے ہمیں توقع ہے کہ وہ سیاسی عمل کی شروعات کرے اور آئينی کمیٹی کی نشستوں میں سرگرمی سے شرکت کرے۔ آستانہ اجلاس میں شام کا مسئلہ خصوصی طور پر ایجنڈے میں ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔