کربلا کا پیغام عام کرنے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار

کربلا کا پیغام عام کرنے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار

امام زین العابدین علیہ السلام نے شام میں مختلف انداز اپنایا اور زیادہ تر اپنی شخصیت کے تعارف اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کو واضح کرنے پر زور دیا

تحریر: مہدی جنتی

 

جب کربلا کا واقعہ رونما ہوا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی عمر محض 23 برس تھی۔ اس المناک واقعہ کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی شہدائے کربلا خاص طور پر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی یاد زندہ رکھنے کیلئے وقف کر دی۔ آپ علیہ السلام نے کربلا کے پیغام کو عام کرنا اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد قرار دیا۔ روز عاشور سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک امام زین العابدین علیہ السلام نے اسلامی معاشرے کو اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مظلومیت سے آگاہ کیا اور مختلف مواقع پر شہدائے کربلا کے غم کا اظہار کرتے رہے۔ امام حسین علیہ السلام کی انقلابی تحریک مختلف پہلووں پر مشتمل تھی، جن پر انہوں نے مدینہ سے کربلا تک کے سفر کے دوران بہت اچھی طرح روشنی ڈالی۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر اور مختلف طریقوں سے اسلامی معاشرے کو کربلا کے پیغام سے آگاہ کیا۔ چند اہم مواقع اور اقدامات درج ذیل ہیں:

 

1)۔ کوفہ میں خطبے

چونکہ اہل کوفہ امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کو اچھی طرح جانتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی نصرت نہ کرنے کی واحد وجہ غفلت اور دنیا کا لالچ تھا، لہذا امام زین العابدین علیہ السلام نے کوفہ میں اپنے خطبوں کے ذریعے اہل کوفہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ امام سجاد علیہ السلام نے نواسہ رسول کے بہیمانہ قتل کی شدید قباحت اور اس گناہ کے عظیم ہونے کو واضح کیا۔ اسی طرح انہوں نے اہل کوفہ کی بیعت شکنی کی بھی شدید مذمت کی اور ان کے اندر شرمندگی کا احساس پیدا کیا۔

 

2)۔ شام میں خطبات

امام زین العابدین علیہ السلام نے شام میں مختلف انداز اپنایا اور زیادہ تر اپنی شخصیت کے تعارف اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کو واضح کرنے پر زور دیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے اہل شام کو امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کو پہچواننے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر جب اسیروں کا قافلہ شام کے شہر میں داخل ہوا تو ایک بوڑھا شخص امام زین العابدین علیہ السلام کے قریب آکر کہنے لگا: "ہم اس خدا کے شکرگزار ہیں، جس نے تم لوگوں کو ہلاک کیا اور امیر کو تم لوگوں پر غلبہ عطا کیا۔۔" امام سجاد علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: "اے بوڑھے شخص، کیا تم نے قرآن کریم کی تلاوت کی ہے؟" اس نے کہا جی ہاں۔

 

امام علیہ السلام نے فرمایا: "کیا تم نے اس آیت کریمہ کی بھی تلاوت کی ہے: "کہہ دو میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، مگر اپنے عزیزوں سے محبت" (سورہ شوری، آیت 22)؟ اور اس آیت کی بھی تلاوت کی ہے: "اور اپنے عزیزوں کا حق ادا کرو؟" (سورہ اسرا، آیت 26) اور یہ آیت بھی پڑھی ہے: "اور جان لو تمہیں جو بھی غنیمت حاصل ہو، اس کا پانچواں حصہ رسول خدا اور ان افراد کیلئے ہے، جو اس کے قریبی رشتہ دار ہیں؟" (سورہ انفال، آیت 41)"۔ بوڑھا شخص کہنے لگا جی ہاں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی قسم، ان آیات میں رسول خدا (ص) کے قریبی رشتہ داروں سے ہم مراد ہیں۔" اس کے بعد فرمایا: "کیا تم نے خدا کا یہ کلام سنا ہے: "بالتحقیق خداوند متعال آپ اہلبیت سے ہر قسم کی نجاست دور کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔" (سورہ احزاب، آیت 33)"۔

 

بوڑھے شخص نے کہا جی ہاں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "ہم وہ اہلبیت ہیں، جنہیں خداوند متعال نے طاہر و مطہر قرار دیا ہے۔" بوڑھا شخص کہنے لگا: "قسم کھاو کہ تم یہی لوگ ہو۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "یقیناً ہم ہی یہ افراد ہیں۔" بوڑھا شخص شدید شرمندہ ہوا اور اہلبیت اطہار علیہم السلام پر ہونے والے ظلم و ستم پر دکھ کا اظہار کرنے لگا اور بنی امیہ کے اقدامات سے بیزاری کا اظہار کیا۔ یوں شام میں امام سجاد علیہ السلام کی محنت رنگ لائی اور اہل شام بھی یزید کے مجرمانہ اقدامات اور اہلبیت علیہم السلام کی عظمت سے واقف ہوگئے۔ امام سجاد علیہ السلام کے خطبے اس بات کا باعث بنے کہ یزید بھی خود کو اس عظیم گناہ سے مبرا کرنے لگا اور اس کا الزام دیگر اشخاص پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ یزید نے ابن زیاد پر لعنت کرتے ہوئے کہا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا ذمہ دار ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے قافلے کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔

 

3)۔ مدینہ میں امام سجاد علیہ السلام کے اقدامات

امام زین العابدین علیہ السلام نے مدینہ آنے کے بعد بھی اپنا مشن جاری رکھا اور ہر موقع پر یزیدی حکومت کے جرائم اور کربلا والوں کی مظلومیت بیان کرتے رہے۔ مدینہ میں داخل ہوتے ہی امام سجاد علیہ السلام نے ایک شاعر کو دعوت دی اور اسے سید الشہداء علیہ السلام کی مظلومیت پر شعر کہنے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہوگئے تو خود امام سجاد علیہ السلام نے بھی خطاب کیا اور یوں کربلا کا پیغام اسلامی معاشرے میں پھیلنا شروع ہوگیا۔

ای میل کریں