جب اسلام اور انسانیت کے دشمنوں نے امام حسین (ع) اور آپ کے با وفا اور جان نثار اصحاب و انصار اور عزیزوں کو شہید کردیا تو پھر گیارہویں محرم کی المناک اور درد و غم سے بھری صبح نمودار ہوئی اور دولت و ثروت، حکومت اور ریاست کے بھوکے بھیڑیئے عمر سعد نے شہداء کے سروں کو تن سے جدا کردیا اور حضرت امام حسین (ع) کا سر خولی اور حمید بن مسلم کے حوالہ کرکے اسی دن ابن زیاد کے پاس لے جانے کا حکم دیا اور باقی سروں کو بھی دیگر قبائل کے خونخوار درندوں کے حوالہ کیا تا کہ ابن زیاد کے پاس لے جا کر اس سے انعام و اکرام حاصل کریں اور اس کے تقرب سے بہرہ مند ہوں۔
عمر سعد گیارہویں محرم کو زوال تک کربلا میں رہا اور اپنے مقتولین کے جنازوں پر نماز پڑھی اور سب کو دفنادیا اور جب نصف روز گذر گیا تو رسولخدا (ص) کی بیٹیوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کرکے انہیں تُرک و روم کے اسیروں کی طرح وہاں سے لے جانے کا حکم دیا۔ اور جب قتلگاہ سے گذارا گیا اور بیبیوں کی نظر امام حسین (ع) اور مقتولین پر پڑی تو منہ پیٹنا شروع کردیا اور گریہ و زاری بلند ہوگئی۔
کامل الزیارات میں مقبر حدیث میں ہے کہ حضرت سید سجاد (ع) نے "زائدہ" سے فرمایا: جب عاشور کا دن آیا تو ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، ہمارا گھر ماتم کدہ بن گیا، ہمارے اہل حرم پر قیامت گذر گئی اور کربلا میں ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی اور آپ کے حرم محترم کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کرکے دیار بہ دیار لے جایا گیا۔ پھر میں نے اپنے والد اور آپ کے تمام اہلبیت کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ سب خاک و خون میں غلطاں ہیں اور آپ کے لاشے کربلا کی زمین پر پڑے ہیں، کوئی دفن کرنے والا نہیں۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، میرا سینہ پھٹنے لگا اور مجھ پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ روح نکل جائے گی۔ میری پھوپھی نے یہ حالت دیکھا اور گھبرا کر سوال کرتی ہیں کہ اے عزیز برادر! یہ تمہارا کیا حال ہے؟ جواب دیا کہ پھوپھی اماں کیونکہ آہ و فغاں نہ کروں جب کہ اپنی آنکھوں سے اپنے والد اور آقا اور اہل حرم کا جنازہ دیکھ رہا ہوں۔جناب زینت (س) نے فرمایا: پریشاں نہ ہو، یه خدا کا رسول اور تمہارے آباء و اجداد سے یہ عہد تھا کہ دین خدا کے لئے یہ سب دیکھیں اور مصائب برداشت کریں۔
رسولخدا (ص) کی امت نے رسول کے نواسہ اور دلبند زہرا (س) اور علی (ع) کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا کہ کسی غلام اور کنیز کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، جانوروں کو بھی پانی پلادیا جاتا ہے۔ یہ کیسے سنگ دل اور بے حیا انسان تھے کہ سنگدلی اور ظلم و ستم کی حد کردی۔ جس کا کلمہ پڑھتے تھے، جس سے دین لیا تھا اور جس سے دین داری سیکھی تھی اسی کے ساتھ مال دنیا اور مقام دنیا کے لئے حیوانیت اور درندگی اور فرعونیت پر اتر آئے، حیرت ہے کہ جس کے نانا کا کلمہ پڑھتے تھے اسی کے نواسہ کو بے گور و کفن خاک و خون میں غلطاں چھوڑدیا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
محرم و صفر کی وجہ سے دین باقی ہے۔ محرم و صفر نے، ان مجالس اور عزاداری نے اسلام کو زندہ اور تابندہ رکھا ہے۔