تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ایران کی طرف سے پابندیوں کے خاتمے اور جوہری مسائل سے متعلق تجویز کردہ دو مسائل پر ویانا میں مذاکرات کا نیا دور جمعرات کی شب ایران اور p4+1 کے نمائندوں کے ساتھ شروع ہوا۔ ایران اور1+P4(روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کے درمیان ویانا میں جاری مذاکرات کے حوالے سے ایک پیغام میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے مغرب سے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے، لیکن مغربی فریقوں کے مبینہ خدشات کو دور کرنے کا براہ راست تعلق پابندیوں کے مکمل خاتمے سے ہے۔ دوسری طرف مذاکرات کے نئے دور میں ایرانی مذاکراتی ٹیم نے ایک سنجیدہ اقدام انجام دیتے ہوئے اپنے مجوزہ متن کو دو مسائل کی شکل میں پیش کیاہے، یعنی "جابرانہ پابندیوں کا خاتمہ" اور "جوہری مسائل۔"
مذاکرات کے اس دور کے آغاز میں، مذاکرات میں موجود ممالک نے گذشتہ دور کے مقابلے میں ہونے والی ملاقاتوں کا بظاہر زیادہ مثبت جائزہ لیا ہے۔ مذاکرات میں روس کے نمائندے میخائل اولیانوف نے دوسرے دور کے افتتاحی اجلاس میں کہا، "مذاکراتی ٹیموں کی بات چیت میں کچھ اہم ابہام دور ہوگئے ہیں اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔" اسلامی جمہوریہ ایران نے خود کو ایک ذمہ دار ملک ثابت کیا ہے، اس بات کے پیش نظر کہ امریکہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمہ دار رہا ہے اور اس کی تصدیق کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے. یہ واشنگٹن ہی ہے کہ اسے پابندیوں کے خاتمے اور امریکی وعدوں پر عمل درآمد کے ساتھ معاہدے کی طرف واپس آنا چاہیئے۔ یورپی یونین اور امریکہ نے ایران کی تجاویز پیش کرنے کے بعد یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایران نے اپنے مطالبات میں تبدیلی کی ہے اور یہ مذاکرات کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد نے ایٹمی معاہدے کے اندر رہ کر دو نکاتی متن پیش کیا ہے۔ یہ نکات گذشتہ مذاکرات اور ایٹمی معاہدے کے فریم ورک کے اندر حاصل ہونے والے متن کی بنیاد پر ہیں، اسی طرح ایران میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود ایران کے مذاکراتی انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مغربی میڈیا ایران کی طرف سے اس بات کی ضمانت کے مطالبے کو سامنے لاتا ہے کہ امریکہ اس بار معاہدے میں شامل ہو کر مستقبل میں بھی جوہری معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا، مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایران کا یہ مطالبہ امریکہ کے ماضی کے رویئے کی وجہ سے ہے، جبکہ امریکہ میں اندرونی تنازعات کے تناظر میں جیسا کہ کانگریس کے بعض ارکان کی جانب سے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبرداری کی دھمکی سامنے آچکی ہے، اس تناظر میں کسی بھی ممکنہ معاہدے کی کامیابی کے لیے ایران کا مطالبہ کافی معقول اور ضروری ہے۔ امریکہ میں فرانس کے سابق سفیر جیرارڈ ایرو نے کہا: "اگر ایٹمی معاہدے کو دوبارہ شروع کر دیا جاتا ہے لیکن 2025ء میں پابندیوں کی واپسی کا خطرہ بدستور موجود رہے تو کوئی بھی مغربی کمپنی ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا وفد اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ایک سازگار معاہدے تک پہنچنے کے لیے جب تک ضروری ہو، ویانا میں رہنے کے لیے تیار ہے اور اس تجویز کا روس اور چین سمیت دیگر فریقین نے بھی خیرمقدم کیا ہے اور یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ ایران معاہدے تک پہنچنے میں سنجیدہ ہے۔ اسی حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران دوسرے فریقوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ایران کے تحفظات اور اصولی موقف کو سمجھ کر ایسے خیالات اور تجاویز پیش کریں، جو معاہدے کے متن پر سنجیدہ مذاکرات کی تشکیل میں مدد کریں۔ جمعہ کی صبح ویانا مذاکرات میں ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ بعض فریق پابندیاں ہٹانے کے حوالے سے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
بہرحال ویانا میں مذاکرات کے ساتویں دور کے دوبارہ شروع ہونے کے ساتھ ہی شرکاء نے مختلف نشستوں میں پابندیوں کے خاتمے اور جوہری مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کنی نے جو پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات میں شرکت کی غرض سے ویانا میں ہیں، سفارتی مشاورت کے تسلسل اور ماہرین کی نشستوں کے علاوہ روسی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ میخائل اولیانوف اور آسٹریا کے وزیر خارجہ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ علی باقری کنی نے آسٹریا کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ اور بین الاقوامی امور کے ساتھ ساتھ ویانا کے مذاکرات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ آسٹریا کی حکومت مذاکرات کی میزبان کے طور پر اس سفارتی عمل کو مکمل کرنا اور ایک حتمی معاہدے تک پہنچنا چاہتی ہے۔ آسٹرین وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدہ کیمیائی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے نظام کے کلیدی عنصر کی طرح ہے، جسے پوری طاقت کے ساتھ برقرار رکھا جانا چاہیئے۔