ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے امام خمینی (رہ) کا بے مثال تحفہ

ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے امام خمینی (رہ) کا بے مثال تحفہ

اسلامی ممالک لاتعداد خطرات اور سازشوں سے دوچار ہیں اور ان میں تفرقہ، اختلافات، علاقائی تنازعات اور دہشت گردی اہم مسائل شمار ہوتے ہیں


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

 

صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے پینتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں، سازشوں کے مقابلے میں امت مسلمہ اور عالم اسلام میں آگہی اور بیداری پیدا کرنے کے حوالے سے اس کانفرنس کے کردار کو انتہائی اہم اور موثر قرار دیا۔ صدر ابراہیم رئیسی نے خطے میں امریکی صیہونی اہداف میں داعش کی آمیزش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس سازش کا لبنان و افغانستان میں مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس سے پہلے عراق اور شام میں اس سازش کو دیکھ چکے ہیں۔ لہذا اس سازش کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے اور مسلم علماء کرام اس سازش کو بے نقاب کرکے امت کے نوجوانوں کو بچا سکتے ہیں۔

 

اسلامی ممالک لاتعداد خطرات اور سازشوں سے دوچار ہیں اور ان میں تفرقہ، اختلافات، علاقائی تنازعات اور دہشت گردی اہم مسائل شمار ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیلنجز درحقیقت مشترکہ خطرات کی صورت میں خطے کے تمام ملکوں اور عالم اسلام کو متاثر کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور انتہاء پسندی صرف عراق اور شام کے لیے ہی سنگین خطرہ نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ افغانستان کے حالات اور دہشت گرد گروہ داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں صورتحال کی سنگینی کا واضح ثبوت ہے۔ اس پس منظر میں تفرقہ نیز، انتہاء پسندی اور علیحدگی پسندی جیسے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے عوامل کی نفی اور انہیں مسترد کرنا اسٹریٹیجک اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ عالم اسلام میں اتحاد کے فروغ کے لیے، حقائق کو بیان کرنے، سازشوں کو بے نقاب کرنے اور اسلامی ملکوں کے درمیان وحدت آفریں سوچ اور تعاون کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت پوری شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔

 

مذکورہ باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، عالم اسلام کے خلاف رچائی جانے والے سازشوں اور منصوبوں اور خاص طور سے خطے میں امریکہ کے اہداف کو سمجھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کبھی اسلامی ملکوں کی سلامتی اور استحکام کا خواہاں نہیں رہا۔ کیونکہ خطے میں اسرائیل کے ناجائز وجود اور امریکہ کے تسلط پسندانہ اہداف کا تحفظ عالم اسلام کی کمزوری اور ان کے درمیان اختلافات سے وابستہ ہے۔ اسلام دشمن قوتیں، عالم اسلام کو کمزور اور آپس میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں، تاکہ خطے میں ان کی ناجائز موجودگی کو جواز ملتا رہے۔ امریکی سیاستدان بھی کھل کر یہ بات کہتے ہیں کہ اگر مغربی ایشیاء کے خطے میں جنگوں اور جھڑپوں کو جاری رکھا جائے تو اسرائیل کو تحفظ ملتا رہے گا۔

 

اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عالم اسلام اتحاد امت کی قیمتی اقدار کو اپناتے ہوئے، حقیقی اسلامی تشخص کی جانب واپس لوٹے۔ اگر ہم ایسا کر پائیں تو عالم اسلام کو تسلط پسند سامراجی طاقتوں کی بالادستی سے نجات دلانے کی سمت اہم قدم ہوگا۔ یقیناً عالم اسلام اتحاد و یکجہتی کی طاقتور فصیل تعمیر کرکے اختلافات، فرقہ واریت اور انتہاء پسندی کے گرداب سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ کانفرنس کے پہلے دن لبنان کے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ویڈیو خطاب کیا۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اسلامی مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور مسلمانوں اور اسلامی علماء کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو بڑھایا جائے۔ سید حسن نصراللہ کے الفاظ کی اہمیت موجودہ حساس اور سنجیدہ حالات میں مزید اہمیت کی حامل ہے۔ آج اسلام کے دشمن اسلامی ممالک کو توڑنے، اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرنے اور آخر میں اسلامی باقیات کو ختم کرنے اور صیہونی حکومت کو اسلامی مملک  کے ساتھ تعلقات کو "معمول پر لانے" کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔

 

سید حسن نصر اللہ نے اسلامی ممالک کی رائے عامہ کو روشن کرنے اور اسلامی سازشوں کے بارے میں خبردار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آج اسلام دشمن طاقتوں نے مغربی ایشیائی خطے اور عالم اسلام کو عام طور پر نشانہ بنا رکھا ہے۔ آج اسلامی علماء کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے اور اسلامی ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس تناظر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا  ہے کہ اسلامی دنیا برسوں سے بڑے مسائل اور فتنوں کا سامنا کر رہی ہے اور امریکہ کی قیادت میں متکبر طاقتوں نے مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہوا ہے۔ لہذا اسلامی اتحاد کے موضوع پر کانفرنسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہے گذشتہ بیس تیس سالوں میں اسلامی اتحاد پر منعقدہ کانفرنسوں سے حاصل کی گئی کامیابیوں اور نتائج نے کئی اختلافی مسائل پر قابو پانے نیز خطرات اور چیلنجز سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ کے خطاب کی اہمیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کو ثبوت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ صہیونی حکومت مسلمانوں کے اتحاد اور امت اسلامی کے خلاف اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تناظر میں سب سے اہم، موثر اور خطرناک عنصر ہے۔

 

ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام مختلف سازشوں کا سامنا کر رہا ہے، مسلمانوں کو مختلف مسائل میں الجھانے کا ایک بڑا مقصد صہیونی حکومت کی سامراجی کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ اسی تناظر میں قائد انقلاب اسلامی نے ماضی میں ہونے والی ایک وحدت کانفرنس سے خطاب میں فرمایا تھا۔ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے سلسلے میں عالم اسلام کی ناتوانی اور کمزوری کے علل و اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے امت مسلمہ کے اندر اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی امریکا، برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی مربوط کوششوں اور سازشوں کی جانب اشارہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ تسلط پسند سامراجی طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اختلاف اور تفرقے کے ذریعے امت مسلمہ کو حیاتی اہمیت کے حامل مسئلہ فلسطین سے لاتعلق رکھا جا سکتا ہے، اسی لئے وہ ہر ممکنہ حربہ استعمال کرکے فرقہ وارانہ، مذہبی اور جغرافیائی اختلافات کو شیعہ اور سنی فرقوں نیز دیگر اسلامی مکاتب فکر کے دلوں میں شعلہ ور کر رہی ہیں۔

 

قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد و ہمدلی کو عظیم امت مسلمہ کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا اور اسلامی ممالک کی حکومتوں، روشن فکر دانشوروں، علماء اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو اتحاد قائم کرنے کے فریضے پر عمل کی دعوت دی اور فرمایا کہ "اگر اسلامی بیداری میں اور بھی گہرائی اور گیرائی پیدا ہو جائے اور مسلمانوں کے قلوب ایک دوسرے کے اور بھی نزدیک آجائیں تو اجتماعی تعاون و ترقی کی راہ کھل جائے گی اور مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے بیشتر مسائل کا حل نکل آئے گا۔" آج بھی امریکہ، غاصب اسرائیل اور آل سعود کی کوشش ہے کہ امت کے اتحاد و وحدت کا جنازہ نکال دیا جائے، تاہم ہفتہ وحدت جیسے ایام امت مسلمہ کو اکٹھا ہونے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں، ہفتہ وحدت امت مسلمہ کے لئے امام خمینی (رہ) کا ایک ایسا تحفہ ہے، جو ہمیشہ باطل قوتوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھتا رہے گا۔

 

ای میل کریں