تحریر: سویرا بتول
تاریخِ امت میں عاشورا راہِ حق میں چلنے والی تحریکوں میں سب سے عظیم تحریک ہے۔ اِس تحریک سے داخلی طاغوتوں اور سرکشوں کے خلاف قیام کرنے کا سبق بھی ملتا ہے اور خارجی دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑنے کا جذبہ بھی! وہ خون جو حسین ابنِ علی اور اُن کے اصحاب کی قربانی کی وجہ سے اُن کی گردنوں سے نکلا، ہر تحریک کو عزت و جلال عطا کرتا ہے، جس کے ذریعے مومن اپنے حق، اپنے دین اور اپنی دنیا کے لیے قیام کرتے ہیں۔
واقعہ کربلا کے دو پہلو ہیں۔ ایک طرف امام عالی مقام علیہ السلام کا کٹا ہوا بدن ہے اور دوسری طرف آپ کا ضاٸع شدہ حق۔ اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے کٹے ہوٸے بدن پر اِس لیے روئیں، تاکہ اپنی قوتِ ارادی کو ضائع شدہ حق کی واپسی کے لیے آمادہ کریں تو یہ درست ہے، ورنہ بغیر معرفت کے گریہ و زاری کا کوٸی فاٸدہ نہیں۔ بنی امیہ نے امام حسین علیہ السلام اور اِن کے اہلِ بیت کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ بھیڑیوں اور درندوں نے بھی کبھی لاشوں کے ساتھ نہیں کیا۔ یہ حق ہے کہ جو لوگ اپنے دین سے منحرف ہو جاتے ہیں، وہ ایسے ہی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، جن سے انسانیت کی پیشانی شرم سے جھک جاتی ہے۔
دشمنی حیدرِ کرار کی روکے نہ رکی
بدر کی آگ تھی جو کرب و بلا تک پہنچی
کربلا میں دو پرچموں کا مقابلہ تھا۔ حسینی پرچم جو کہ خداٸے رحمن کا عَلم اور پرچم ہے اور بنی امیہ کا پرچم جو شیطان کا پرچم ہے۔ حسینی پرچم درحقيقت آدم علیہ السلام، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، پیغمبرِ اسلامﷺ اور مولاٸے کاٸنات کا پرچم اور عَلم ہے جبکہ بنی امیہ کا پرچم قابیل، نمرود، فرعون، ہامان، ابو سفیان اور امیرِ شام کا پرچم ہے۔ امام عالی مقام نے یزید لعین کی ایک دن کی، دن کے ایک لمحہ کے برابر بھی اطاعت کو قبول نہیں کیا۔ جس طرح رسولِ اسلامﷺ نے ایک لمحہ کے لیے بھی بتوں کی پوجا کو قبول نہیں فرمایا۔ یزیدیوں نے شہداٸے کربلا کی بریدہ لاشوں کے ساتھ کربلا میں جو کچھ کیا، یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو گناہوں کی کتنی پست ترین سطح تک لے جاتا ہے اور دنیا میں کس طرح اِن کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ عاشور میں حقیقی قرآن اور دھوکہ دینے والے قرآن کے مابین مقابلہ ہوا۔ رسولِ اسلامﷺ کا دفاع کرنے اور رسول اللہ سے روگردانی کرنے والوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
یزیدوں نے امام عالی مقام علیہ السلام کے شیر خواروں پر پانی بند کیا، اہلِ بیت اطہار کے خیموں کو جلایا اور خانوادہ عصمت و طہارت کو اسیر کیا۔ مگر آج پوری دنیا میں کربلا کے پیاسوں کی یاد میں جگہ جگہ سبیل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج پوری دنیا دیکھتی ہے کہ مومنین کروڑوں گھر بنا کر امام حسین اور انکے اہل بیت کے نام وقف کر دیتے ہیں۔ یہ ازل سے تاریخ کا حصہ رہا ہے کہ جب بھی اہلِ حق اور اہلِ باطل آمنے سامنے اپنے اپنے چہروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ہر شخص مجبور ہوتا ہے کہ وہ جس صف سے تعلق رکھتا ہے، اس صف میں شامل ہو، صادق اور سچا صادقین اور سچوں کے ساتھ کھڑا ہوگا، جھوٹا جھوٹوں کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اس طرح امام عالی مقام علیہ السلام کے مقابلے میں آنے والے منافقوں کے چہروں سے نقاب دور جا گرے گا۔
اسی طرح آج بھی حسینی تحریک کی وجہ سے نفاق کا چہرہ عیاں ہو رہا ہے۔ یہ جو آج عزاداری سید الشہدإء کے خلاف ہرزہ سراٸی کر رہے ہیں، یہ درحقيقت اپنے اسلاف کی تاریخ پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، مگر آج بھی حسینی تحریک کی وجہ سے منافقوں کے چہروں سے حجاب ہٹتے ہوٸے نظر آرہے ہیں اور حسینی تحریک روزِ قیامت تک منافقوں کو بے نقاب کرتی رہے گی۔
دشمنِ حیدر کرار خدا کا دشمن
دشمنِ رب کا نبیﷺ سے نہیں کوٸی بندھن
ابنِ مرجانا ہو ملجم ہو یا شمرِ جوشن
عرش و فرش پہ دوزخ کا یہی ہیں ایندھن
لبِ قرآن سے اِن لوگوں پہ لعنت اتری
اِن کی نسلوں میں علی سے نہ محبت اتری