امام زمانہ (عج) ہادی بشریت
جب آپ (عج) ظہور فرمائیں گے کہ خداوند عالم انشاء ﷲ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے، تو آپ تمام انسانوں کو انحطاط و زوال اور گمراہی سے نجات دیں گے اور تمام برائیوں کی اصلاح فرمائیں گے {یَمْلَأُ الأرْضَ عَدْلاً بَعْدَ مٰا مُلِئَتْ جَوراً} (اصول کافی، ج ۱، ص ۵۲۵، کتاب الحجہ، باب ما جاء اثنی عشر والنص علیہم، حدیث ۱) ’’زمین کو عدل وانصاف سے پر کردیں گے کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی‘‘۔ عدل وانصاف کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو ہم جانتے ہیں کہ ایک عادلانہ نظام حکومت ہو اور وہ ظلم نہ کرے، یہ بھی ہے لیکن سب کچھ نہیں ، اس حدیث کا معنی اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ {یَملَأُ الأرْضَ عَدْلاً بَعْدَ مٰا مُلِئَتْ جَوراً} کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ زمین آج اور اس کے بعد بھی شاید اپنی اس موجودہ حالت سے زیادہ خراب اور بدتر ہوجائے گی۔ ظلم وجور سے پر ہے، تمام انسانوں میں انحراف ہے۔ حتی ہمارے درمیان موجود کامل انسانوں میں بھی انحرافات ہیں اگرچہ کہ وہ خود اس بات سے آگاہ نہ ہوں ، افراد کے اخلاق بھی انحراف کے حصار میں ہیں ۔ انحرافات نے عقائد کو بھی آدبو چاہے، انسانوں کے اعمال انحراف سے خالی نہیں حتی تمام انسانوں کے اعمال میں انحراف کو بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام زمانہ ؑ اس بات پر مامور ہیں کہ ان تمام برائیوں کی اصلاح فرمائیں اور ان تمام انحطاط وانحرافات کو راہ اعتدال کی طرف اس طرح لوٹا دیں کہ جو {یَمْلَأُ الأرْضَ عَدْلاً بَعْدَ مٰا مُلِئَتْ جَوراً} پر صادق آجائے۔ اس جہت سے یہ عید، تمام بشریت کی عید ہے، یہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے اور یہ عید تمام انسانوں کی عید ہے۔ آپ ؑ انشاء اﷲ تمام بشریت کی ہدایت فرمائیں گے اور زمین کو تمام ظلم وجور سے مکمل طورپر پاک کردیں گے۔ اس بناپر یہ بہت بڑی عید ہے اور ایک معنی کے لحاظ سے یہ عید، حضرت ختمی مرتبت(ص) کی ولادیت کی عید سے ایک لحاظ سے بڑی عید ہے کہ جو خود عظیم ترین اعیاد میں سے ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۴۸۲)
اپنی توان وطاقت کے مطابق ائمہ(ع) سے نصیحت حاصل کریں
آپ اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ حضرت امیر المومنین(ع) باوجود یہ کہ معاشرتی اصطلاح کے مطابق حجاز (سعودی عرب) سے لے کر مصر اور ایران وعراق تک پھیلی ہوئی ایک بڑی مملکت کی حکومت کے مالک تھے، لیکن ان کی وضع زندگی اور لوگوں سے ان کا سلوک کیا تھا اور اپنے نمائندوں اور والیوں کیلئے ان کی کیا ہدایات تھیں ؟ حضرت نے کتنی قیمتی ہدایات ارشاد فرمائی ہیں ۔ ہاں ! ہم یقینا خود حضرت علی (ع) جیسے نہیں بن سکتے لیکن ہم ان کے شیعہ اور پیروکار ضرور بن سکتے ہیں ۔ ہم جس حد تک ان کی پیروی کرسکتے ہیں تو ہمیں پیروی کرنی چاہیے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف خدا تھا۔ یہ دنیا اور اس کی حکومت وسلطنت ان کی نظروں میں ہیچ تھی اور اس کی کوئی وقعت نہیں تھی اور اگر تھی تو صرف اس لیے کہ دنیا میں ایک عادلانہ نظام قائم کرسکیں ۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں بھی ایک مملکت وحکومت کا مالک بنوں ، صرف اس لیے کہ عدل وانصاف قائم ہو اور گناہوں پر خدا کی طرف سے متعین شدہ حدود کو جاری کیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ان سے درس اور نصیحت حاصل کریں اور جہاں تک ہم سے ہوسکے ان کی سیرت پرعمل کریں ۔
(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۱۹۵)