ایران میں تیرہویں صدارتی الیکشن

ایران میں تیرہویں صدارتی الیکشن

موجودہ حکومت جو کہ اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کی مخلوط حکومت ہے، چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا کریڈٹ بھی لے رہی ہے

ایران میں تیرہویں صدارتی الیکشن

 

تحریر: نادر بلوچ

 

ایران میں تیرہویں صدارتی الیکشن کیلئے پولنگ کا عمل جاری ہے، سات امیدواروں میں سے تین امیدوار آخری ایام میں بیٹھ گئے تھے، چار امیدواروں میں ایران کے  موجودہ چیف جسٹس سید ابراہیم رئیسی، اسیٹیٹ بینک کے سابق سربراہ عبدالناصر ہمتی، مجلس شوریٰ کے ڈپٹی اسپیکر سید  امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق کمانڈر محسن رضائی شامل ہیں۔ اصل مقابلہ سید ابراہیم رئیسی اور عبدالناصر ہمتی کے مابین میں بتایا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو اصلاح پسند اور معتدل کہنے والوں کا ایک ہی امیدوار مقابلہ میں موجود ہے جبکہ اصول گرا سمجھے جانے والوں کے تین امیدوار کھڑے ہیں، ایران کے نظام کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں الیکشن میں کوئی بھی امیدوار کھڑا ہوسکتا ہے، بھلے وہ ملک کا چیف جسٹس ہو ہا گورنر اسٹیٹ بینک۔ ایرانی قوم چار دہائیوں سے امریکہ کی جانب سے بدترین معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے، جس کے باعث ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے، الیکشن کمپئین میں اس بات پر زیادہ زور  نظر آیا کہ ناامید نہ ہوں، موجودہ صورتحال سے نکل آئیں گے۔

عموماً ایران کے بارے میں پاکستان میں یہی رائے پائی جاتی ہے کہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہے، گذشتہ الیکشن میں بھی ابراہیم رئیسی امیدوار تھے اور یہاں پاکستان سے کئی تجزیہ کاروں نے پہلے ہی ابراہیم رئیسی کی جیت کا پروانہ لکھ دیا تھا لیکن حسن روحانی نے پہلے سے بھی کہیں زیادہ ووٹ لیکر ان کی رائے کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ اس بار بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی جیت جائیں گے، لیکن حتمی طور پر فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ عوامی سروے میں ابراہیم رئیسی ٹاپ پر ہیں، باقی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں کوئی ایسا اقدام نہیں کرسکے، جس سے ایران کی مشکلات میں کمی آئی ہو، ایران کی معیشت مزید تباہ ہوئی، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے اور جس جوہری ڈیل کا وہ کریڈٹ لیتے تھے، اس کا بھی حال سب نے دیکھ لیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس الیکشن میں کون امیدوار کامیاب ہوتا ہے اور وہ ایرانی عوام کی امنگوں پر کیسے پورا اترتا ہے۔

موجودہ حکومت جو کہ اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کی مخلوط حکومت ہے، چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا کریڈٹ بھی لے رہی ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ایرانی قوم اس معاہدے کو کتنی کامیابی کی سند دیتے ہیں۔ آج کا الیکشن بہت اہمیت کا حامل ہے، ایک طرف کورونا کی فضا ہے تو دوسری جانب ایران کو عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کا سامنا ہے، سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ’’آج کا دن ایرانی قوم کا دن ہے، میں ہمیشہ عوام کو انتخابات میں شرکت کی دعوت دیتا آیا ہوں، ایران انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا۔‘‘  ایک کریڈٹ ایران کو ہمیشہ جائے گا کہ جیسے بھی حالات ہوں، یہاں الیکشن اپنی مقررہ تاریخ کو ہوتے ہیں، آٹھ سالہ جنگ ہو یا زمانہ امن الیکشن ہوکر رہتے ہیں، یہاں فرار کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا، اصلاح طلب ہوں یا اصول گرا ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں، چار دہائیوں میں ایران میں جمہوری روایات مضبوط ہوچکی ہیں، صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثہ کرایا جاتا ہے، ان سے سوالات کیے جاتے ہیں، جن سے امیدوار کی اہلیت اور آئندہ کے پروگرام سے ایرانی قوم کو آشنائی ملتی ہے، جو ایک اچھی چیز ہے۔

ای میل کریں