امام خمینی (رح)

انسان کی دنیوی و اخروی زندگی

جان لو کہ عالم غیب وشہادت اور دنیا وآخرت کے موجودات میں سے ہر ایک کیلئے ایک مبدا ہے اور ایک معاد

انسان کی دنیوی و اخروی زندگی

انسان کی دو زندگیاں  ہیں : ایک مادی ودنیوی زندگی کہ جو اس جہاں  میں  ہے اور دوسری روحانی واخروی زندگی کہ جو دوسرے جہان میں  ہے، ان دونوں  زندگیوں  میں  سے ہر ایک کے اپنے خاص وسائل ہیں  جن کے حصول کیلئے انسان کو کوشش کرنا پڑتی ہے۔ فلسفۂ اولیٰ، قرآن کریم اور تمام انبیاء ؑ کی تعلیمات سے ثابت ہے کہ اس دنیا کا سازوسامان اور وسائل اسی دنیا میں  آمادہ کرنے چاہئیں ۔ اور اس دعوے کے اثبات کیلئے انبیاء ؑ کی روحانی تعلیمات ہی کافی ہیں۔ (کشف الاسرار،  ص ۳۱۱ ۔ ۳۱۲)

 

معاد کی عمومیّت

جان لو کہ عالم غیب وشہادت اور دنیا وآخرت کے موجودات میں  سے ہر ایک کیلئے ایک مبدا ہے اور ایک معاد، اگرچہ مبداء کل اور مرجع کل ذات الٰہی ہے۔ لیکن چونکہ اسماء کے پردے کے بغیر موجودات عالیہ یا سافلہ پر ذات مقدس حق تعالیٰ جل وعلا کی بالذات کوئی تجلی نہیں  اور اس مقام کے مطابق جو ایک بے اسم وبے رسم ’’لامقامی‘‘ ہے اور اسمائے ذاتی، صفاتی وافعالی سے متّصف نہیں  اور موجودات میں  سے کسی ایک کو بھی اس سے نہ کوئی تناسب ہے اور نہ ہی کسی قسم کے ارتباط واختلاط کی گنجائش ۔ {أین التّراب وربّ الأرباب} (خاک کہاں، رب الارباب کہاں) چنانچہ اس لطیف نکتہ کی تفصیل ہم نے ’’مصباح الہدایۃ‘‘ میں  تفصیل سے بیان کردی ہے۔پس اس کی ذات مقدس کی مبدائیت ومصدریت اسماء کے حجاباب میں  ہے اور اس کا اسم، اس کا عین مسمیٰ ہونے کے باوجود، اس کا حجاب بھی ہے۔ لہذا عالم غیب وشہادت میں  تجلی، اسماء کے مطابق اور اسماء ہی کے پردے میں  ہوتی ہے۔ اسی لیے حضور علمی میں  ذات مقدس الہی کے اسماء وصفات کے جلوہ میں  تجلیات ہیں  کہ جن کو اہل معرفت ’’اعیان ثابتہ‘‘ کہتے ہیں ۔ بنابریں  ہر تجلی اسمی کیلئے حضور علمی میں  ایک ’’عین ثابتہ‘‘ ضروری ہے اور ہر اسم کیلئے تعین علمی کے ساتھ مرحلہ خارجیہ میں  ایک مظہر ہے کہ جس کا مبدا ومرجع وہی اسم ہے جو اس سے تناسب رکھتا ہے اور عالم کثرت کی موجودات میں  سے ہر موجود کی بازگشت جس غیب اسم کی طرف ہوتی ہے اور جو اس کا مبدا ومصدر ہے، وہی اس کی ’’ صراط مستقیم‘‘ ہے۔ پس ہر ایک کیلئے ایک مخصوص ’’سیر وصراط‘ ‘ہے اور ایک مبدا ومرجع ہے جو طوعاً وکرہاً، حضرت علم میں  مقدر ہے اور مظاہر وصراط کا اختلاف، ظاہر اور حضرات اسماء کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔ (آداب نماز، ص  ۲۹۳ ۔ ۲۹۲)

ای میل کریں