حضرت امام خمینی (رح) کے فکری اصول عالمی مطالعات اور اسلامی انسان شناسی سے ماخوذ ہے اور مندرجہ ذیل مفاہیم پر استوار ہے:
1۔ تمام شعبوں اور فردی و اجتماعی زندگی کے میدانوں میں توحیدی بصیرت کا حاکم ہونا اور اسلامی معاشرہ میں دیانت کے اصول و فروع پر بنیادی عقیدہ کی تاثیر یعنی وحی، نبوت، امامت، عدالت، معاد، تبرا اور تولی جیسے اصول و فروع پر تاثیر اور اس کا کردار ہے۔
2۔ خلیفہ الہی اور خدا کے امین، صاحب ارادہ اور اختیار اور اپنی تقدیر سازی میں تعقل اور انتخاب کی قدرت اور توانائی رکھنے والے کے عنوان سے انسان کی ذات کرامت اور شرافت کی جاودانی اور کمال کی جانب حرکت کے استمرار میں تجربہ اور عقل کا کردار ہے۔
3۔ انسان کا الہی فطرت کا حامل ہوا جو اس کی ترقی، خیر و بھلائی کا سرچشمہ اور بنیاد ہے۔
انسانوں کی خلقت میں یکساں اور برابر ہونا اور رنگوں، نسلوں اور دیگر انسانی صنفوں کے درمیان کسی فرق کا نہ ہونا، اسلام کے پیغام کا عالمی ہونا اور انسانوں کو نیک اور انسانی کاموں کی انجام دہی میں عمومی تعاون اور امداد کی دعوت دینا ہے۔ انسان کی مادی اور معنوی سرشت کے وجود کا قائل ہونا اور اس کے اندر ترقی اور پیشرفت کی تمام چیزوں اور فردی، معاشرتی، مادی، معنوی، جسمی، روحی اور عاطفی تمام میدانوں میں ان وجوہات کا ایک دوسرے سے لازمہ ہے۔خیرخواہی، کمال طلبی، خواب کا پورا ہونا، لامحدود علمی توانائی اور انسان کی علم و دانش، جمال و خوبصورتی، پاکیزگی اور عبادت اور اخلاقی نیکیوں کی جانب میلان۔
معنوی اقدار اور اخلاقی فضائل میں ایمان کی قدرت اور خلاقیت، استقلال و آزادی کا جذبہ ایجاد کرنا، عزت نفس اور معاشرہ میں انسانی مناسبتوں کو مضبوط بنانا۔
آدمی کا تربیت قبول کرنا اور موحد، عدالت دوست، علم دوست، جہاد و اجتہاد پر مبنی ایک معاشرہ کی بنیاد ڈال کر اس کی استعداد اور خلاقت کو ظاہر کرنا۔ اعتدال اور حقیقت پسند ہونا، نیز فکری، تنقیدی، علمی تحقیقاتی مباحثوں اور گفتگو سے بہرہ مند ہونا، تاریخ سے عبرت اور تجربہ حاصل کرنا۔
اسلامی معاشرہ میں معنوی اقدار اور اخلاقی فضائل کو اصل قرار دینا اور انسانوں کی فضیلت اور کرامت کے مرتبہ کی تعیین میں علم و جہاد اور تقوی کے بلند مقام کو جاگزیں کرنا۔
سماجی ماحول سے انسان کا منفی اور مثبت اثر لینا اور اس کی ثقافتی آفتوں اور رکاوٹوں سے متاثر ہونا اور ماحول کو صحیح و سالم بنانے میں اسلامی نظام کی مسئولیت، قسط و عدل کا تحقق، تمام امور میں لوگوں کے حق شراکت کی تکمیل اس بات کے مد نظر کہ کفر و نفاق، فقر و فساد، ظلم و استبداد، تسلط و استکبار کے اسباب و علل کو برطرف کرنے کا قائل ہونا۔
یعنی اگر معاشرہ صحیح و سالم ہوگا تو مذکورہ بالا صورتوں کو عملی جامہ پہنانے سے ہوگا، کیونکہ جس معاشرہ میں عدل و انصاف کی حکومت ہو، ظلم و استبداد سے نفرت اور بیزاری ہوگی، لوگ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں گے، لوگ ماضی کے واقعات قصوں اور حوادث سے سبق حاصل کریں گے۔ اپنی عقلی اور فکری توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے، علم و عمل کی راہ کھولیں گےامن وامام قائم کریں گے اور ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری پر عمل کرے تو یقینا انسانی معاشرہ ایک نمونہ معاشرہ بن جائے گا۔
لیکن شرط یہ ہے کہ سارے لوگ خداداد عقل و فطرت کی روشنی میں کام کریں اور ہر شخص فرد اور معاشرہ کو آگے بڑھانے اور ترقی کی راہ پر لگانے کی کوشش کرے ۔ خدا کرے کہ وہ دن نصیب ہو اور انسانیت کا بول بالا ہو۔