حضرت امام خمینی (رح) کی رحلت کی مناسبت سے آپ کی زندگی پر ایک نظر
امام خمینی 20/ جمادی الثانیہ 1320/ق مطابق 24/ ستمبر سن 1902/ء کو ایران کے مرکزی ضلع خمین شہر میں دینی، مذہبی اور اہل علم و دانش اور صاحبان دفاع اور جہاد گھرانے میں پیدا ہوئے اور 4/جون 1989ء کو دار فانی سے رخصت ہوگئے۔
امام خمینی (رح)، آیت الله بروجردی (رح) کی رحلت کے بعد طاغوت کی سیاستوں کی مخالف میں اٹھ کھڑے ہوئے اور 6/ جون سن 1963ء کے قیام میں گرفتار کرکے تہران کے جیل میں ڈالے گئے۔ کچھ دنوں بعد آزاد ہوکر قم آئے۔ کیپٹالیزم (ایران میں امریکی مجرموں کی حفاظت) معاملہ میں قم کی مسجد اعظم میں اہم اور شعلہ بیان خطاب کیا اور گرفتار کرلئے گئے اور ایران سے ترکی اور وہاں سے عراق جلاوطن کردیئے گئے۔ امام خمینی (رح) عراق میں قیام کے دوران اسی طرح شاہی حکومت سے مقابلہ کی قیادت کرتے رہے اور 1979ء میں ایران کی شاہی حکومت کے عراق کی بعثی حکومت سے موافقت کے بعد آپ عراق ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور پیرس جانے کے بعد مقابلہ اور انقلاب نے امام کو سیاسی مرحلہ میں داخل کردیا۔
امام کے پیرس میں قیام اور مغربی ذرائع بلاغ میں آپ کے نظریات اور گفتگو کے انعکاس سے پہلو حکومت کمزور اور گمنامی کا شکار ہونے لگے اور آپ کی عاقلانہ اوردقیق رہبری نے ایران والوں کے اسلامی انقلاب کو شاہ اور شاہی گھرانے کے ایران سے نکل جانے کے مسئلہ کو ہر دن قریب سے قریب تر کردیا۔ 1/ فروری سن 1979ء مرحوم رہبر کے واپس آنے کے بعد اور نزدیک سے انقلاب کی رہبری کرنے کی وجہ سے 11/ فروری سن 1979ء کی صبح کو کامیابی کا صور پھونک دیا اور ایرانی عوام کی کامیابی کی گواہی دے گی۔
شاہی حکومت کے زوال اور 57/ سالہ ظالمانہ پہلوی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ امام خمینی (رح) نے لوگوں کی اکثریت آراء سے جمہوری اسلامی ایران کی بنیاد رکھ دی۔ 11/ فروری سن 1979ء سے 4/ جون 1989ء تک حضرت امام نے انقلاب کی اسی طرح رہبری کی اور انقلاب و ملک کو خطرناک حوادث، گوناگون سازشوں، چالوں اور عراق کی جانب سے زبردستی لادی گئی، 8/ سالہ جنگ اور پابندیوں کے باوجود امن و امان اور بخوبی رہبری کی۔
امام خمینی (رح) نے انقلاب کے خواہاں، اغراض و مقاصد اور جن باتوں کا ابلاغ کرنا ضروری تھا؛ سب کہا اور ابلاغ کیا تھا اور ان اغراض و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی پوری ہستی لگادی تھی۔ اب آپ نے 4/ جون 1989ء اس عزیز و قدیر الله کی بارگاه میں جانے کے لئے خود کو آمادہ کرلیا جس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پوری عمر صرف کی تھی اور آپ نے اس ذات کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکایا اور آنکھیں صرف اس کے خوف اور عشق میں غم کی ہیں اور اس کے لئے گریہ کیا ہے۔
امام کے عارفانہ اشعار سارے کے سارے درد فراق اور محبوب کے لحظہ وصال کی تشنگی کو بیان کرتے ہیں ۔ اب آپ کے لئے یہ عظیم الشان گھڑی اور آپ کے ماننے والوں کے روح فرسا اور جانگداز لمحہ آگیا۔ آپ نے خود اپنے وصیت نامہ میں لکھا ہے۔ میں قلبی اطمینان اور سکون خاطر، شاد و حرم روح اور فضل الہی امیدوار ضمیر کے ساتھ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان سے رخصت ہو کر ابدی منزل کی جانب جارہا ہوں اور میں آپ حضرات کی دعائے خیر کا بہت محتاج ہوں اور خداوند رحمن و رحیم سے درخواست اور التجاکرتا ہوں کہ خدمت میں کوتاہی اور کمی کے میرے عذر کو قبول فرمائے اور اپنی ملت سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ خدمت میں جو کوتاہی ہوئی ہے یا کمی رہ گئی ہی اسے معاف کردے گئی اور پورے عزم و ارادہ اور پوری طاقت کے ساتھ آگئے بڑھتی رہے گی۔