شاید میری بدگمانی کی وجہ سے میرا انجام برا ہو
جس طرح گناہوں میں عُجب (خودپسندی) کا شکار افراد ایک درجے سے دوسرے درجے تک جاتے ہیں یہاں تک کہ کفر اور زندقہ تک پہنچ جاتے ہیں ، اسی طرح طاعات میں عجب کے شکار افراد بھی عجب کے نچلے درجے سے اس کے بلندترین درجے تک پہنچ جاتے ہیں ۔
دل میں شیطان اور نفس کے فریب ضابطے کے تحت ہوتے ہیں ۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ، جو کہ تقویٰ اور خوف خدا کے ملکہ کے حامل ہیں ، کو نفس کسی کے قتل یا زنا کا حکم دے یا جو شخص شرافت وطہارت کی صفت کا حامل ہے اسے چوری اور ڈکیتی کا مشورہ دے۔ یہ ممکن ہے کہ شروع میں نفس آپ سے کہے کہ اس ایمان اور ان اعمال کے سلسلے میں خدا پر احسان جتلاؤ یا اپنے آپ کو بارگاہ خدا کے محبوبین، محبین اور مقربین کے زمرے میں شمار کرو، بلکہ شروع میں وہ نچلے درجے سے آپ کے دل میں رخنہ اندازی کرتا ہے اور آپ کو مستحبات، اذکار اور اوراد کی زیادہ پابندی پر اکساتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اہل معصیت کے کسی ایک عمل کو آپ کی حالت کے پیش نظر آپ کی نظر میں لاتا ہے۔ آپ کو باور کراتا ہے کہ آپ عقل اور شریعت کی روسے اس شخص سے بہتر ہیں اور آپ کے اعمال آپ کی نجات کا موجب ہیں ۔ بحمداﷲ کہ آپ پاک وپاکیزہ ہیں اور گناہوں سے عاری اور بری ہیں ۔
اس سے آپ دو نتیجے حاصل کرتے ہیں ، ایک خدا کے بندوں کے بارے میں بدگمانی اور دوسرا خود پسندی اور یہ دونوں ہی مہلک اور برائیوں کا سرچشمہ ہیں ۔ آپ نفس اور شیطان سے کہیں کہ یہ شخص جو گناہ میں مبتلا ہے ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے ملکہ کا حامل ہو یا دوسرے اعمال انجام دیتا ہو کہ جن کے باعث خدا تعالیٰ اسے اپنی رحمت میں غرق کرلے اور اس اخلاق اور اس ملکہ کا نور اس کی ہدایت کرے جو کہ اس کے اچھے انجام پر منتج ہو۔ اسی شخص کو خدا نے شاید اس لیے معصیت میں مبتلا کیا ہے تاکہ یہ عُجب (خودپسندی) جو کہ گناہ سے زیادہ بری ہے، میں مبتلا نہ ہو۔ جیسا کہ کافی کی حدیث میں ہے:
عن أبي عبداﷲ (ع) قال: {اِنَّ اﷲَ عَلِمَ أنَّ الذَّنْبَ خَیْرٌ لِلمُؤمِنِ مِنَ الْعُجْبِ وَلَولاٰ ذٰلِکَ مَاابْتَلی مُؤمِناً بِذَنْبٍ أبَداً} حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: ’’یقینا خدا جانتا ہے کہ گناہ مومن کیلئے عجب (خودپسندی) کی نسبت بہتر ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا کبھی بھی مومن کو گناہ میں مبتلا نہ کرتا‘‘۔
اور شاید میری اسی بدگمانی کی وجہ سے میرا انجام برا ہوجائے۔
چہل حدیث، ص ۲۵۹