امام خمینی (رح)

ہمیں خمینی چاہیئے؟

کالج لائف میں امام خمینی سے ذرا زیادہ تعارف ہوا، پڑھنے کی ہماری عادت نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کو پڑھا جائے کہ آخر وہ ہیں کون؟

ہمیں خمینی چاہیئے؟

 

تحریر: میثم عباس ساجدی

 

بچپن کا عالم تھا، ڈیرے پر بات چیت ہو رہی تھی۔ آج کی طرح اس وقت بھی سب سے بڑا مسئلہ کرپٹ نظام ہی تھا، ہر کوئی اس کے خاتمے کے لیے اپنی اپنی تجویز دے رہا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ گاوں کا ہر شخص اس نظام کا ستایا ہوا تھا۔ پٹواری سے لے کر عدالت کے چکر لگاتے بزرگ ہو جانے والے وہ لوگ زمانے کے سرد گرد کو اپنے جسم پر گزار چکے تھے۔ ان کے دماغ پٹواری کے موچھوں کے تاو سے ہی اس کے ریٹ کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ ایک بزرگ کافی دیر سے خاموش بیٹھے ہوئے گہری سوچ میں گم تھے، جب سب اپنی اپنی تجاویز دے چکے تو وہ گویا ہوئے اور ایک ہی جملہ کہا کہ ہمیں کسی خمینی کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا امام خمینی سے پہلا تعارف تھا،  ہمیں تعجب ہوا کہ امام خمینی کوئی ایک آدمی ہوگا، اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ کہ  ایک جہاندیدہ بزرگ جس کے پاس آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی فیصلے کروانے کے لیے آتے ہیں، وہ بھی پٹواری جیسے بادشاہ کا قبلہ درست کرنے کے لیے امام خمینی کا نام لے رہا ہے۔ دس بارہ سال کا بچہ جتنا سوچ سکتا ہے، میں نے بھی اتنا ہی سوچا اور ذہن میں یہ بٹھا لیا کہ ضرور یہ کوئی بہت طاقتور شخص ہے، جو پٹواری تو کیا ججز کو بھی سیدھا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

کالج لائف میں امام خمینی سے ذرا زیادہ تعارف ہوا، پڑھنے کی ہماری عادت نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کو پڑھا جائے کہ آخر وہ ہیں کون؟ اور انہوں نے کیا کیا ہے؟ یقین جانیے جوں جوں پڑھتا گیا، بچپن میں ڈیرے پر بابا جی کی کہی اس بات کی حقیقت واضح ہوتی چلی گئی کہ جب کوئی نظام بوسیدہ ہو کر خود عوام کو کھانے لگے اور کچھ طاقتور گدھ عوام کو نوچ رہے ہیں اور عوام کی چیخیں آسمانوں تک پہنچ رہی ہوں تو ایسے میں ایک خمینی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس بوسیدہ نظام کو اٹھا کر بحرالکاہل میں موجود دنیا کی سب سے گہری گھاٹی میں پھینک دے اور عوام کو ان کا حق آزادی واپس دلائے۔ ہاں قارئیں آزادی ایک بہت ہی وسیع مفہوم ہے اور دنیا تو اس وقت اصطلاحات کی جنگ میں ہی مصروف ہے۔ شرم و ذلت کی انتہا ہے کہ اسرائیل کا وزیراعظم بھی اپنی تقریر میں آزادی پر زور دے رہا تھا اور گجرات کے فاشسٹ مودی کو تو آپ ہر تقریر میں آزادی پر بھاشن دیتے سن رہے ہوں گے اور جو کچھ ہمارے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کر رہا ہے وہ  بھی آپ کے سامنے ہے۔

دنیا دلنشین نعروں سے پرے حقیقت میں ضابطوں کی پابند چیز ہے۔ امام خمینی کی زندگی کا ایک اہم سبق کسی بھی صورت میں اپنے مقصد سے دستربردار نہ ہونا اور شکست لفظ کو حرف غلط کی طرح زندگی سے ختم کر دینا ہے۔ آپ کو سب سے پہلے ترکی جلاوطن کیا گیا، آپ نے کچھ عرصہ وہاں گزارا، وہاں سے آپ نجف اشرف جلاوطن کیے گئے، ایک مدت آپ وہاں رہے۔ جب وہاں بھی شاہ نے محسوس کیا کہ ہمارے لیے خطرہ ہیں تو انہیں کویت جلاوطن کرنے کا کہا گیا، کویت نے غالباً قبول نہیں کیا تو آپ کو جس ملک جلاوطن کرنے کا فیصلہ ہوتا، وہ شرائط رکھتے کہ سیاسی مسائل پر بات نہیں کریں گے۔ جب کئی آزادی اظہار کے دعویدار ممالک کی طرف سے ایسا کیا گیا تو آپ نے ایک تاریخی بیان دیا تھا کہ میں یہ نامناسب شرائط قبول نہیں کروں گا اور اسی طرح دنیا کے ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک ائرپورٹ سے دوسرے ائرپورٹ سفر کرتا رہوں گا اور دنیا میں آزادی اظہار کے نام نہاد چمپئنز کا چہرہ بے نقاب کرتا رہوں گا۔

یہ اپنے مقصد پر یقین اور مشکل سے مشکل حالات میں کامیابی کا عزم رکھنے والی شخصیت کے ہی الفاظ ہو سکتے ہیں۔ ظاہری طور اس وقت شاہ ایک طاقتور حکمران کے طور پر موجود تھا اور دنیا کا کوئی ملک اس کی دشمنی مول لے کر اپنے مفادات کو نقصان نہین پہنچا سکتا تھا۔ جب فرانس نے امام خمینی کو اپنے ہاں پناہ دی تو  تہران کا فرانسی سفارتخانہ پھولوں سے ڈھک دیا گیا تھا۔ قارئیں، اقوام کے ردعمل ایسے ہی ہوتے ہیں، جب ایرانی قوم نے امام خمینی کو ایک لیڈر کے طور پر قبول کر لیا اور اس وقت ایران پر شاہ ہی کی حکومت تھی، مگر جس ملک نے ان کے لیڈر کے ساتھ اچھا کیا، انہوں نے انتہائی سخت حالات میں بھی اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہر معاملے میں اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ امام خمینی کو شاہ کے دباو پر عراق سے جلاوطن کیا گیا تھا، فرانس جیسے ملک میں جانے سے بظاہر شاہ نے یہ سمجھ لیا کہ اب میں نے خمینی کی رابطہ لائن ہی کاٹ دی ہے، مگر اس کے برعکس ہوا۔

عراق میں نجف اس طرح بین الاقوامی سیاست کا مرکز نہیں تھا، فرانس میں آپ کو بین الاقوامی میڈیا اور روابط کی آزادی میسر آگئی۔ اس سے انقلاب کی رفتار اور تیز ہوگئی اور تھوڑے ہی عرصے میں انسانوں نے دیکھا کہ ایک درویش جلاوطنی کی زندگی ختم کرکے تہران کے ہوائی اڈے پر اتر رہا ہے اور ملینز لوگ اس کا استقبال کر رہے ہیں۔ قدرت کا کیا ہی عجیب نظام ہے، قارئین چند ماہ پہلے تک امام خمینی پناہ کی تلاش میں تھے اور اب خطے کا ایک جابر حکمران پناہ کی تلاش میں تھا۔ شاہ کا جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک جا رہا تھا، مگر کوئی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ شاہ کے محلات تہران میں رہ گئے تھے۔ ایران کے غیور عوام نے شاہ اور اس کے پورے نظام کو زمین بوس کر دیا تھا۔ یہ ہر معنی میں ایک انقلاب تھا، پورے کے پورے نظام کو تبدیل کیا گیا، ملکی سطح پر ہر قانون بدلا اور بین الاقوامی سطح پر بھی ظلم میں شریک ہر ملک سے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوگئی۔ یہ انقلاب بتاتا کہ عوام میں شعور ہو تو دنیا کی طاقتور فوج اور بین الاقوامی حمایت کسی کو اقتدار میں نہیں رکھ سکتی۔ آج بھی جب میں سنتا ہوں کہ ہمیں خمینی کی ضرورت ہے تو ذہن بچپن کی اس محفل کی طرف چلا جاتا ہے۔

ای میل کریں