طاقت و مکالمہ آزادی فلسطین کے نئے ہتھیار
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
فلسطینی مزاحمتی تحریک میرے خیال میں اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ماضی میں کی گئی مسلسل غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا جا چکا ہے۔ اہل فلسطین کو یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ انہیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے، باہر سے ان کی مدد کے لیے کوئی عرب نہیں آئے گ، بلکہ یہ لوگ تو فلسطینیوں کو بیچ کر اپنی قیمت بڑھا رہے ہیں۔ فلسطینی جوان، بچے اور بچیاں بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں، ان کے نعرے دنیا کو سمجھ میں آنے والے ہیں، فلسطینی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے دنیا کی زبان میں پیش کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے جدید سوشل میڈیا نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ طاقتور اسرائیلی لابیاں جو بات قومی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے دنیا تک نہیں پہنچنے دیتیں، وہ دو چار منٹس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا رہی ہیں۔ نئی نسل نئے جذبے سے ٹھوس بنیادوں پر اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں، اسرائیل نے انتہاء پسند یہودیوں کی طرف سے مشرقی بیت المقدس میں منعقد ہونا والے فتح مارچ کو روک دیا ہے۔ یہ مارچ فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف تھا۔ اس بار خدشہ تھا کہ اگر یہ مارچ فلسطینی علاقوں سے گذرے گا تو بڑے پیمانے پر خونریزی ہوگی۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے مشرقی بیت المقدس کے فلسطینیوں کے زمین کے کیس سے متعلق فیصلے کو ملتوی کر دیا ہے۔ یقیناً یہ فیصلہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا ہی تھا، اسی لیے اسے ملتوی کیا گیا، ورنہ اسے سنا کر مسئلہ کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ اس مزاحمت نے اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں توجہ حاصل کی ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے، ایک وقت تھا جب فلسطینی کوڑیوں کے بھاو زمینیں بیچ رہے تھے اور ایک یہ وقت ہے کہ فلسطینی ایک ایک انچ کے لیے قانونی و اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ اب بین الاقوامی دباو کی ضرورت ہے تو ایسی تحریک چلی کہ دنیا کا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔
یہ میڈیا کی جنگ ہے اور اس کا میدان معلومات کو اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ پہلی بار لگ رہا ہے کہ اس میدان میں کچھ کام کیا گیا ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں، مثلاً پہلے اسرائیلی تو عربی جانتے تھے اور انہیں فلسطینیوں کی ہر بات کا پتہ چل جاتا تھا، مگر فلسطینی عبرانی نہیں جانتے تھے، جس کا انہیں ہمیشہ نقصان ہوتا تھا۔ اب ایسا نہیں، اب بہت سے فلسطینی اور مزاحمتی تحریک کے لوگ باریک بینی سے عبرانی کے ماہر ہیں اور پورے اسرائیلی میڈیا کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان کی حکمت عملی کا توڑ کیا جا رہا ہے اور عربی، انگلش اور دیگر زبانوں میں فلسطینی بیانیے پر مواد فوری فراہم ہو رہا ہے۔
پہلی بار بڑی تیزی سے اسرائیلی پروپیگنڈا ویڈیوز کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی خود اپنے کپڑے پھاڑ رہے ہیں اور خود کو ایسا ظاہر کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں نے ان پر حملہ کیا ہے۔ اس کو ٹریس کیا اور موقع پر توڑا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد لی جا رہی ہے، فلسطینی آئی ٹی کے ماہرین سوشل میڈیا کے اسرائیلی گروپس پر سائبر حملے کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اسرائیلی افواج فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتی ہوئی ان کے بڑے بڑے علاقوں پر قابض ہو جاتی تھیں۔ اب وہ دور جا چکا ہے، یہ سچ ہے کہ فضا میں اسرائیل کو برتری حاصل ہے، اسی طرح سمندر بھی انہی کے کنٹرول میں ہے، مگر اب صورتحال نے کئی طرح سے پلٹا کھایا ہے۔
فلسطینیوں کے پاس راکٹ سازی اور میزائل سازی کی اگرچہ سادہ ہی سہی تربیت آگئی ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق یہ لوگ کسی حد تک ڈرونز بھی بنا رہے ہیں۔ آذربائیجان کی آرمینا پر برتری کی سب سے بڑی وجہ ڈرونز تھے، اسی طرح، صنعا کی قومی افواج نے سعودی عرب اور اس کے ہمنواوں کو ڈرونز کی مدد سے ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اگر مقاومت کی مدد سے یہ لوگ ڈرونز بنانے کے قابل ہوگئے ہیں اور راکٹ و میزائل بھی مقامی سطح پر بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تحریک مزاحمت فلسطین کا اگلا مرحلہ آچکا ہے، جس میں دس میزائل حملے ہوں گے تو جواب کم از کم دو تین اسرائیل کو برداشت بھی کرنا ہوں گے۔
یہ بات طے ہے کہ اسرائیل ایسی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں کہ ہر روز اس کے پانچ سات شہری بھی مریں۔ اسرائیلی اسلحہ کا سحر بھی امریکی اسلحہ کے سحر کی طرح ٹوٹ رہا ہے۔ سعودی عرب نے اربوں ڈالر دے کر امریکی دفاعی نظام خریدے تھے، جو ڈرونز اور میزائل حملے روکنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل میں بھی یہی ہو رہا ہے بلکہ یہ حملے اسرائیلی دفاعی نظام کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ چھوٹے چھوٹے راکٹ تل ابیت تک پہنچ رہے ہیں۔ اگر یہ جدید ترقی یافتہ میزائل ہوتے تو اسرائیل کی فوجی تنصبات مٹی کا ڈھیر بن چکی ہوتیں۔
جین سارٹر لکھتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے 5 منٹ کے اندر محض 137 ہوم میڈ ان گائیڈڈ راکٹس اشکیلون اور اشدود پر پھینک کر اسرائیلی دفاعی نظام آئرن ڈوم کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ زیادہ تر راکٹس آئرن ڈوم نے انٹرسیپٹ کر لیے، لیکن کچھ راکٹس بہرحال اسرائیلی آبادیوں میں ضرور گرے۔ آئرن ڈوم بہت اچھا نظام ہے، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر دفاعی یا جارحانہ نظام کو ذہانت کے ساتھ شکست دی جا سکتی ہے۔ اگر آج حماس کے ان غریبانہ راکٹس کی جگہ کوئی بھی اچھا گائیڈڈ اور تیز رفتار راکٹ سسٹم ہوتا تو اس کی صرف دو بیٹریز پورے آئرن ڈوم کو تہس نہس کر ڈالتیں۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی اچھی سہی، لیکن ان کی مارکیٹنگ بہت زیادہ اچھی ہے۔
مزاحمت کا ایک میدان جس پر اسرائیلی مکمل طور پر چھائے رہے اور جس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں فلسطینیوں کو تمام تر مصائب کے باوجود ظالم سمجھا جاتا رہا، وہ مکالمہ اور اپنے بات پہنچانے میں ناکامی کا محاذ تھا۔ موجودہ امریکی اور یورپی قیادت کا ذہن اسی یکطرفہ پروپیگنڈے کی پیداوار ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے فلسطینی مزاحمتی تحریک اور اس کے اتحادیوں نے بین الاقوامی زبان میں بات کرنے والے بہت اچھے لوگ پیدا کیے ہیں، جو یورپ و امریکہ کی زبان میں ان کے مذہب اور انسانی حقوق کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس سے پالیسی سازوں پر اثر ہو یا نہ ہو، عام امریکی اور عام یورپی یقیناً متاثر ہوتا ہے۔ طاقت مکالمہ کے بغیر اور مکالمہ طاقت کے بغیر بے معنی ہوتا ہے۔ امید ہے کہ فلسطینیوں کی یہ مزاحمت کامیاب ہوگی اور یہ مقدس خطہ امن پائے گا۔ یہاں کے مسلمان، مسیحی اور یہودی فلسطین میں مل جل کر رہیں گے اور صیہونیت کا خاتمہ ہوگا، ان شاء اللہ۔