مہدویت، ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی نظر میں

مہدویت، ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی نظر میں

احادیث میں آیا ہے کہ امام زمانہ عج کے ظہور سے پہلے شدید آزمائشیں آئیں گی اور بہت زیادہ دباو ہوگا

مہدویت، ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی نظر میں

 

تحریر: علی احمدی

امام زمانہ عج کے دور کیلئے زمینہ فراہم کریں

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای جوانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "آپ جوانان عزیز جو زندگی اور جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، اس دور کیلئے زمینہ فراہم کریں۔ ایسا دور جس میں ظلم و ستم کا نام و نشان تک نہ ہو گا، ایسا دور جس میں انسانی سوچ اور عقلیں ہر زمانے سے زیادہ فعال اور تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہوں گی، ایسا دو جس میں اقوام ایکدوسرے سے جنگ نہیں کریں گی، دنیا میں جنگ کی آگ لگانے والے ہاتھ جو اب تک علاقائی اور عالمی سطح پر جنگیں برپا کرتے آئے ہیں اس وقت جنگ برپا کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ عالمی سطح پر مکمل طور پر امن اور سکون کی فضا ہو گی۔ ہمیں اس دور کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔

 

احادیث میں آیا ہے کہ امام زمانہ عج کے ظہور سے پہلے شدید آزمائشیں آئیں گی اور بہت زیادہ دباو ہوگا۔ آزمایش کس جگہ اور کس وقت؟ اس وقت جب جدوجہد کا میدان ہے، امام مہدی عج کے ظہور سے پہلے جدوجہد کے میدان میں پاکیزہ انسان آزمائے جائیں گے۔ انہیں آزمایش کی بھٹی میں ڈالا جائے گا اور وہ سرخرو ہو کر باہر آئیں گے اور دنیا روز بروز امام زمانہ عج کے اہداف اور آئیڈیلز سے قریب ہوتی جائے گی۔ یہ وہ عظیم امید ہے۔ لہذا نیمہ شعبان عظیم عید کا دن ہے۔ ۔ ۔ ۔ امام زمانہ عج کے ظہور کا زمینہ فراہم کرنے کا راستہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونا اور قرآن اور اسلام کی حکمفرمائی ہے۔ امام زمانہ عج کے پیروکار جس شدید آزمایش سے گزارے جائیں گے وہ درحقیقت اسلام کو حکمفرما کرنے کی آزمایش ہے۔ (19 فروری 1992)

 

امام زمانہ عج کا سپاہی بننا آسان کام نہیں

امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: "مہدویت پر عقیدے اور نیمہ شعبان کے جشن سے مجھے اور آپ کو ایک سبق یہ ملتا ہے کہ اگرچہ امام مہدی عج کا معتقد ہونا ایک اعلی آرزو ہے لیکن اس مسئلے کو صرف آرزو تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ یعنی صرف دل کی حد تک یا زیادہ سے زیادہ زبان کی حد تک اور جشن کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ ایسی آرزو ہے جس کا نتیجہ عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا انتظار ہے جو محض بیٹھنے اور آنسو بہانے تک محدود نہیں ہے۔ انتظار کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود کو امام زمانہ عج کا سپاہی بننے کیلئے تیار کریں۔ امام زمانہ عج کا سپاہی بننا آسان کام نہیں۔

 

ایسے عظیم نجات دہندہ کا سپاہی بننا جس نے کرپشن کے تمام بین الاقوامی مراکز کا مقابلہ کرنا ہے، خودسازی اور آگاہی اور بصیرت کا محتاج ہے۔ بعض عناصر امام زمانہ عج پر عقیدے کو دوسروں کو غیر فعال کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ امام زمانہ عج آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے لہذا آج ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔ نہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم ان اہداف کی جانب حرکت کریں تاکہ امام عصر عج کے ظہور کیلئے تیار ہو سکیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ماضی میں جو امام زمانہ عج کے منتظر تھے ہمیشہ اپنے پاس اسلحہ رکھتے تھے۔ یہ ایک علامتی عمل ہے۔ (22 اکتوبر 2002ء)

 

ہمارا اسلامی راستہ بہت معتبر، امید افروز اور واضح ہے

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای فرماتے ہیں: "الحمد للہ ہمارا راستہ واضح اور اسلامی ہے جو امام خمینی رح نے ہمیں متعارف کروایا ہے۔ ہمارا راستہ اس اسلام کا راستہ ہے جس سے خدا کے دشمن خوفزدہ ہیں اور مستضعفین اور مظلومین اس سے خوش اور امیدوار ہوتے ہیں۔ ہمارا راستہ ایسا نہیں جس کا نام تو اسلام ہو لیکن شروع سے آخر تک اسلام دشمن قوتوں کی خدمت میں مصروف ہو۔ ہم اسے اسلام کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ وہ درحقیقت امریکی اسلام ہے۔ امام خمینی رح اس نام کو بہت زیادہ دہراتے رہتے تھے۔ حقیقی اسلام، ایسا اسلام ہے جس سے ابوجہل جیسے اشخاص کو خوفزدہ ہونا چاہئے۔ ایسا اسلام جس سے ابوجہل اور ابوسفیان جیسے اشخاص خوفزدہ نہ ہوں اور اس سے دشمنی کا اظہار نہ کریں، اس کا اسلام ہونا مشکوک ہے۔

 

ایسا اسلام جس سے مستضعفین اور محرومین کے دلوں میں امید کی کرن پیدا نہ ہو اور وہ اس کی طرف کھنچتے چلے نہ آئیں، اسلام نہیں ہے۔ ایسا اسلام جو نہ صرف ہمارے ملک کی سطح پر بلکہ پوری دنیا کی سطح پر مظلوم طبقے کے دل میں چھپی آرزووں اور امیدوں کو زندہ نہ کرے، اس کے اسلام ہونے میں شک کرنا چاہئے۔ عالم بشریت کے تمام دیندار افراد مصلح کے منتظر ہیں اور تمام مسلمان مہدی موعود عج کے منتظر ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں مہدی موعود عج کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دنیا کو ایسے عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہو گی۔ ایسا اسلام جس میں عدالت کے قیام کیلئے جدوجہد اور ظلم کے خلاف مقابلہ نہ ہو وہ کیسے اسلام ہو سکتا ہے اور بشریت کیسے اس کی جانب جذب ہو سکتی ہے؟" (1 مارچ 1990ء)

ای میل کریں