آیت اللہ مدرسی: جناب ابوطالب نے اپنا سب کچھ رسول اکرم (ص) پر قربان کر دیا

آیت اللہ مدرسی: جناب ابوطالب نے اپنا سب کچھ رسول اکرم (ص) پر قربان کر دیا

آیت اللہ العظمیٰ مدرسی نے مسلمانوں کو جناب ابوطالب کا مرہون منت قرار دیا

آیت اللہ مدرسی: جناب ابوطالب نے اپنا سب کچھ رسول اکرم (ص) پر قربان کر دیا

 

ابنا۔ جناب ابوطالب حامی پیغمبر اعظم (ص) بین الاقوامی سیمینار جو ۹ مارچ ۲۰۲۱ کو قم المقدسہ میں منعقد ہوا اس میں آیت اللہ العظمیٰ محمد تقی مدرسی نے رسول اکرم کی ولادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آنحضرت کی ولادت کے وقت کچھ ایسے حوادث رونما ہوئے جو اللہ کی جانب سے خصوصی پیغام کے حامل تھے اور وہ سب پر آشکار ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا: غار حراء سے جب یہ عظیم پیغام بلند ہوا تو شیاطین جن و انس اس آواز کو روکنے کے لیے جمع ہو گئے اب ایسے میں صرف جناب ابوطالب تھے جو پیغمبر کے دفاع کا پرچم لے کر نکلے اور آخری دم تک آنحضرت کا دفاع کیا وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں قبائلی نظام حاکم تھا۔

شیعیان عراق کے مرجع تقلید نے مزید کہا: جناب ابوطالب بنی ہاشم کے سردار تھے اور بنی ہاشم جزیرۃ العرب میں قریش کے درمیان افضل ترین گھرانہ شمار ہوتے تھے قبائیلی نظام میں ایک قبیلے کا کوئی گروہ دوسرے گروہ پر حملہ نہیں کرتا تھا چونکہ اس سے اس قبیلے کی ساکھ کو چوٹ پہنچتی تھی۔

آیت اللہ مدرسی نے جناب ابوطالب کو پیغمبر اکرم (ص) کے سب سے بڑی حامی سمجھتے ہوئے کہا: انہوں نے اپنی ہر چیز کو رسول اکرم (ص) کے دفاع میں قربان کر دیا، وہ راتوں پر مسلسل پیغمبر کے بستر پر اپنے بچوں کو سلاتے تھے تاکہ رسول خدا کو کوئی گزند نہ پہنچے، جناب ابوطالب نے پہلے اپنا مال اور پھر اپنی جان رسول خدا پر قربان کی۔

انہوں نے مزید کہا: رسول اکرم (ص) نے جناب ابوطالب اور حضرت خدیجہ کے رحلت کے سال کو عام الحزن کا نام دیا، مسلمانوں نے ابھی تک جناب ابوطالب کا مقام نہیں سمجھا، ابوطالب اس شخصیت کا نام ہے جنہوں نے علی جیسی عظیم شخصیت اسلام کے حوالے کی۔

انہوں نے کہا: ابوطالب نے اپنے بیٹے کو سکھایا کہ اپنی جان کو رسول خدا پر قربان کرے، اور امام علی نے بھی یہی چیز اپنے بیٹے جناب عباس کو سکھائی۔

آیت اللہ العظمیٰ مدرسی نے مسلمانوں کو جناب ابوطالب کا مرہون منت قرار دیا اور کہا: جناب ابوطالب کے مقام کی اہمیت اس وقت درک کی جا سکتی ہے جب جناب ابوطالب کی رحلت کے بعد رسول خدا کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بخوبی جائزہ لیا جائے، آپ کی رحلت کے بعد رسول خدا مکہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے مزید کہا: جناب ابوطالب کا عظیم کردار ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل ہے جناب ابوطالب کی پیروی میں ہمارے جوانوں نے عراق و شام میں اسلامی مقدسات کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یہ وہ اقدار ہیں جو انہوں نے اپنے آباؤ و اجداد سے حاصل کئے ہیں۔

انہوں نے کہا: شہید قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں نے اسلام کے دفاع میں اپنی جانیں پیش کیں ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ کس طرح دین اور دینی رہنماؤں کی حمایت کریں، جناب ام البنین نے اپنے بچوں کی تربیت کی کہ حجت خدا کا کس طرح دفاع کیا جاتا ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا: آج بالعموم سب کی اور بالخصوص علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ نسل جوان کی تربیت کریں تاکہ دشمنوں کو موقع نہ ملے وہ دینی اقدار کو پامال کر سکیں۔

ای میل کریں