اہلبیت (ع) کی تعلیمات اسلامی معاشرے کے بنیادی مسائل کا حل ہیں، آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اس پیغام کا متن جسے کانفرنس میں حجت الاسلام سعید داوودی نے پڑھ کر سنایا کچھ اسطرح ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سب سے پہلے میں اس کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس طرح کی علمی کانفرنس کا انعقاد کیا جو کہ حضرت امام علی رضا(ع) کے نورانی نام سے مزیّن اور منسوب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم آل محمد(ص) کی عکاسی بھی کر رہی ہے۔
اگر اس کانفرنس کی علمی نشستوں کے عناوین پر نگاہ ڈالی جائے جس کا انعقاد مختلف علوم کے مفکرین اور دانشوروں کے ذریعہ ہوا ہے تو اس علمی کانفرنس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور اسی طرح متعلقہ عہدیداروں اور منتظمین کی حضرت ثامن الحجج علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے علم کے چشموں کی ترویج کے لئے کی جانے والی کاوشیں بھی سمجھ میں آتی ہیں۔
ان نشستوں کے عناوین سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کو انہی شعبوں میں صحیح طرح سے اور عصری تقاضوں کے مطابق بیان کیا جائے تو اس کھٹن کے دور میں اسلامی معاشرے کے بہت سارے بنیادی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔خود اس طرح کی کانفرنسیں اہلبیت علیہم السلام ؛عالم اسلام اور ان کے مکتب کو متعارف کرانے کا بہترین اور مضبوط ذریعہ ہیں، جیسا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ اہلبیت(ع) کے امر کو زندہ رکھنے سے مراد ان کے علوم کا سیکھنا اور پھر لوگوں میں ان علوم کی ترویج ہے اور پھر امام علیہ السلام نے وضاحت فرمائی کہ اگر لوگ اہلبیت علیہم السلام کے گفتاراور کلام کی خوبصورتی کو درک کرلیں تو یقیناً ان کی پیروی کریں گے۔ (فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ كَلامِنَا لاتَّبَعُونا)۔
ہم جانتے ہیں کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی علمی شخصیت کچھ اس طرح کی ہے کہ اہلسنت کے بزرگان بھی آپ کے علم کا اقرار کرتے ہیں ؛ اہلسنت کا مشہور عالم دین ’’ابن حجر‘‘ امام علیہ السلام کی عظمت وشرف کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کے بلند علمی مقام کا بھی اعتراف کرتا ہے ۔ ذھبی جو کہ تعصب اہلبیتؑ میں مشہور ہے اس کے باوجود حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی علمی شخصیت اور بزرگی کا معترف ہے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے دوسرے مذاہب و مکاتب کے دانشوروں کے ساتھ علمی مناظرے ؛ امام علیہ السلام کے علم بے پایان کی دلیل ہے بالخصوص آپؑ کا ایران تشریف لانا اورمختلف علوم کے دانشوروں کے مابین علمی گفتگو کے مواقع فراہم ہونے سے آپؑ کا علمی اثر پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہو گیا۔
امام علی رضا علیہ السلام کے طب سے متعلق دستورات جن کا ایک اہم حصہ رسالۂ ذھبیہ میں جو کہ آپؑ سے منسوب ہے ذکر ہوئے ہیں ، ان دستورات کو طبی تحقیقات اور ریسرچ میں استفادہ کیا جا سکتا ہے تاکہ عصری علوم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ان دستورات کو عملی شکل دے کر معاشرے میں ایک مکمل علم کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔
امام رضا علیہ السلام کی تعلیمات تک رسائی کا ایک اہم اور قیمتی ماخذ کتاب ’’عیون اخبار الرضا(ع)‘‘ ہے جس کے مؤلف شیخ صدوق( رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) ہیں بالخصوص اس میں جو آّپ نےفلسفہ احکام کے ذیل میں بیان فرمایا ہے۔
واضح رہے کہ عصری علوم کے ساتھ ان تعلیمات کی توضیح اور تطبیق کے لئے سخت کوشش اور فروعات کو اصول کی طرف پلٹانے کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی خاص اصطلاحات اور مفروضوں کا جاننا بھی ضروری ہے؛یقیناً اس کانفرنس کے منتظمین نے ان امور پر توجہ کی ہو گی اور آئندہ بھی توجہ کریں گے۔
ان نشستوں اور اجلاس کے علمی نتائج سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے درج ذیل تجاویز پیش ہیں:
۱۔ امام رضا(ع) اور عصری علوم پر مبنی مستقل سیکریٹریٹ قائم کیا جائے تاکہ عصری علوم میں امام علی رضا علیہ السلام کی علمی اور عملی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ پر مشتمل علمی گروہ مستقل طور پر سرگرمی انجام دے سکے ممکن ہے بعض علوم ؛چند علوم، روش اور تجارب کا مجموعہ ہوں جس کے لئے متعلقہ شعبوں کے اساتذہ کی ہمفکری کی ضرورت ہے تاکہ ان تعلیمات کو علمی بنیادوں کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
۲۔ تحقیقی نتائج پیش کرنے کے لئے ایک خصوصی جریدہ یا میگزین کا اجرا
۳۔ دوسرے ممالک کے شائقین کے لئے دنیا کی زندہ زبانوں میں بہترین کتابوں کی اشاعت۔
۴۔ کانفرنس کا دائرہ قومی سطح سے بین الاقوامی سطح تک بڑھانا اورعالم اسلام حتی غیرمسلم دانشوروں کو دعوت دینا اور ان سے عصری علوم میں امام رضا علیہ السلام کی تعلیمات کی تشریح کے لئے استفادہ کرنا اور ان کے نتائج کو معتبر علمی مراکز میں پیش کرنا۔
۵۔ عصری علوم اورتعلیمات امام رضا علیہ السلام کی تشریح کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ماہر اساتذہ کی نگرانی میں تھیوری اور نظریہ پیش کرنے کی حد تک خصوصی کتابوں کی تالیف۔
۶۔ انسانی اور اسلامی علوم کے مراکز کے ساتھ تعاون تاکہ علمی سطح میں اضافہ ہو اور علمی کتب ومقالوں کو استوار اور ٹھوس انداز میں پیش کیا جا سکے۔
۷۔ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کےنو جوان اور با صلاحیت مفکرین سے استفادہ کیا جانا۔
آخر میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے روز افزوں ترقی کے لئے دعا گو ہوں، آپ تمام عزیزوں سے جو کہ اس وقت حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی بارگاہ میں تشریف فرما ہیں دعا کی درخواست ہے۔
والسلام علیکم و رحمه الله و برکاته
قم ـ ناصر مکارم شیرازی
مارچ دوہزار اکیس