قیام توابین؛ شہدائے کربلا کے لئے پہلی مسلحانہ انتقامی کاروائی
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | بنی امیہ نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو ان کےاصحاب و انصار سمیت قتل کردیااور آپ کے اہل حرم کو قیدی بنا کر اپنے خیال خام میں یہی سمجھا کہ حق کی آواز بلند کرنے والے گلے کوگھونٹ دیا اور اب کسی میں ہمّت نہیں کہ ان کا مد مقابل بن سکے۔
لیکن اس مظلومانہ اور دردناک اسیری میں بھی پیغام حسینی کے نقیب، منبر حق کے خطیب، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور شریکۃالحسینؑ حضرت زینب علیہا السلام نے ہر مقام پر حسینیت کی ترجمانی کرتے ہوئے آواز حق بلند کی جس سے انسانیت دشمن اموی نظام اور یزیدی حکومت کی چولیں ہل گئیں۔ وہ ظالم و ستمگر اتنا مجبور ہوگیا کہ نہ فقط اسیران اہل حرم کو آزاد کیا بلکہ عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس بھیجنے کی کوشش کی۔ جبکہ یہ اسیراتنے آزاد اور صاحب اختیار تھے کہ انھوں نے شام چھوڑنے سے پہلے عزاداری حسین ؑ برپا کر کے اپنی فتح کا اعلان کیا۔
بنی امیہ نے ہر حربے استعمال کئے کہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے دور رہیں اور انہیں اس میں وقتی کامیابی بھی ملی کہ جن کوفیوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا وہ ابن زیاد کے خوف سے یا تو اس کے لشکر میں شامل ہو گئے یا کم از کم خاموش ہو کر بے طرف ہو گئے۔ ابن زیاد کو جن بہادروں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوا کہ وہ باطل کی نہ کبھی حمایت کریں گے اور نہ ہی خاموش بیٹھیں گے تو انہیں قید خانہ میں ڈال دیا تا کہ وہ نصرت حسین علیہ السلام کے لئے کربلا نہ پہنچ سکیں ادھر امام حسین علیہ السلام کا کام تمام کر دیا جائے۔
انہیں قیدیوں میں جناب مختار اور جناب سلیمان بن صرد خزاعی بھی تھے جو واقعۂ کربلا کے وقت قید خانہ میں تھے۔ لیکن جب شہادت حسینی کے بعد یہ آزاد ہوئے تو یہ افراد اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ سلیمان بن صرد خزاعی نے لوگوں کواپنے گھر میں جمع کر کے کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی جوہم نے امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہیں دیا لیکن ابھی ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ہمیں چاہئے کہ توبہ کرلیں اور مظلوم کربلا کے قاتلوں سے انتقام لیں۔
حاضرین نے انتقام لینے کے لئے ان کی بیعت کی۔ ۶۱ ہجری سے ۶۴ ہجری تک ان لوگوں نے انتقام کی خاموش تیاری کی اور خود کو آمادہ کیا ۔
جناب سلیمان بن صرد خزاعی اور ان کے لشکر کے قیام کا مقصد قاتلان امام حسین علیہ السلام سے انتقام اور حکومت کو اہلبیتؑ کے حوالہ کرنا تھا۔
ربیع الاول۶۵ ہجری کو سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں یہ لشکر کوفہ سے مظلوم کربلا کے انتقام کے لئے نکلا ۔ پہلے کربلا پہنچا اور مزار مظلوم پر اپنی کوتاہیوں سے توبہ کی اور گریہ و عزاداری کی۔ اس کے بعد لشکر شام کی جانب روانہ ہوا یکم ربیع الثانی۶۵ ہجری کو عین الوردہ میں جنگ ہوئی۔ جنگ سے پہلے جناب سلیمان بن صرد خزاعی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے سیکھے ہوئے آداب جنگ کے مطابق اپنے جانشین معین کئے۔ ( الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۸۰۱۸۱)
المختصر شدید جنگ ہوئی اور یکے بعد دیگرے کمانڈر شہید ہوئے آخر میں رفاعہ بن شداد نے سپاہیوں کو جنگ سے روک دیا اور کوفہ واپس ہو لئے۔ (تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۱، ص۴۸(
اگرچہ اس جنگ میں شکست ہوئی اور ظاہراً یہ قیام ناکام ہوا۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس قیام کی مثال بارش کے اس پہلے قطرہ جیسی ہے جو اپنا وجود کھو دیتا ہے لیکن بعد والوں کے لئے راہ ہموار کر جاتا ہے۔ اسی طرح یہ قیام ناکام ہوتے ہوئے بھی کامیاب رہا کیونکہ اس نے بعد کے قیاموں خصوصاً قیام مختار کے لئے راہ ہموار کی اور چونکہ واقعۂ کربلا کے بعد یہ قیام پہلا شیعہ اتحاد کا مظہر تھا اس لئے اس سے مذہب کو جلا ملی۔
قیام توابین کے وقت بھی جناب مختار قید خانہ میں تھے جب انہیں اس قیام کی شکست اور جناب سلیمان بن صرد خزاعی وغیرہ کی شہادت کی خبر ملی تو قیام توابین کے باقی ماندہ افراد کو تعزیت پیش کی اور اپنے قیام میں شرکت کی دعوت دی۔ (تاریخ طبری ، ج۵، ص۶۰۶،)
قیام توابین کی ناکامیابی اور شکست کی مختلف وجوہات تاریخ میں مرقوم ہیں جیسے:
1- جناب مختار کی قیام توابین سے بے تعلقی۔ (کیونکہ جناب مختار جناب سلیمان بن صرد خزاعی کے نظریات سے متفق نہیں تھے اور نہ ان میں قیادت کی صلاحیت دیکھتے تھے)
2- توابین کا مقصد فقط حصول شہادت تھا اسی لئے بہت کم لوگ ان کے ہمراہ تھے۔
3- توابین کی قلیل تعداد اور بنی امیہ کے لشکر کی کثرت ۔
4- آل زبیر کی خیانتیں۔
بہرحال توابین نے کربلا کے بعد مظلوم کی حمایت اور ظالم سے انتقام کی خاطر پہلا مسلحانہ اقدام کیا۔ اگرچہ ان کو کامیابی نہیں ملی لیکن انہوں نے اس فکر کی بنیاد رکھی جس کے بہتر نتائج بعد میں میسر ہوئے۔