انبیاء کا انسان کی لامحدود قوتوں  کو مہار کرنا

انبیاء کا انسان کی لامحدود قوتوں کو مہار کرنا

انبیاء اس لیے آئے ہیں کہ انسانی نفوس کا تزکیہ کریں، انسان کی تربیت کریں، کتاب کی تعلیم دیں، اسے حکمت سے آراستہ کریں

انبیاء کا انسان کی لامحدود قوتوں  کو مہار کرنا

 

انسان کے ذات کے دو پہلو ہیں ، ایک روحانی پہلو اور ایک ظاہری پہلو۔ اس کا ظاہری اور مادی پہلو یہی ہے کہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں  اور یہی دنیا ہے کہ جس کا آپ مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہی مادیت ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ اس کا معنوی یا روحانی پہلو وہ پہلو ہے جو اس عالم کے ماوراء ہے اور یہ پہلو خود انسان کے اندر ہے لیکن خود انسان ایک سمٹا ہوا عالم ہے۔ گویا خداوند عالم نے اس موجود کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے۔ ایک حصہ تو پورا عالم ہے اور دوسرا حصہ چھوٹا عالم، یعنی انسان، تمام موجودات عالم کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اور انسان میں  تمام چیزیں  موجود ہیں ۔ خداوند عالم نے انسان پر احسان اور لطف وعنایت کی ہے کہ انسان کیلئے پیغمبروں  کو بھیجا ہے جو اس کے معنوی پہلو کی تربیت کریں  کہ جو بہت اہم ہے اور جس کی طرف پوری توجہ دی گئی ہے۔ (انبیاء کا مقصد یہ ہے کہ وہ) لوگوں  کو تزکیہ اور تہذیب نفس سے آراستہ کریں، عوام کو تعلیم دیں، تعلیم کی حکمت سکھائیں ، کتاب خدا کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی بے لگام مادی جہات کو لگام دیں ۔ یہ لوگ جو مادی ہیں  اور اپنی بے لگام مادیت ومادی قوتوں  ہی کی طرف متوجہ ہیں، انہی کی طرف انبیاء کو بھیجا گیا ہے کہ اسی مادیت پرستی اور انہی مادی موجودات کی کہ جن میں  سے ایک انسان بھی ہے اور ان کے وجود کا خلاصہ بھی، ایسی تربیت کریں  کہ اس کی مادی جہات اور قوتوں  کی لگام اس کی معنویت وروحانیت کے ہاتھوں  میں  ہو۔

ہر چیز کی بنیاد واساس معنویت وروحانیت ہی ہے۔ بنیادی طورپر دنیا میں  کوئی بھی تعلیم وتربیت اور دنیا کی کوئی بھی حکومت، انسان کی اس معنویت کی طرف متوجہ نہیں  ہے۔ آپ سب حکومتوں کو دیکھ لیں، اسلامی اور دیگر حکومتوں  کے درمیان صرف عدالت اور عدل وانصاف کو ہی بنیادی فرق اور حد فاصل قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ ایک خیال باطل ہے، یہ فرق بھی صحیح ہے لیکن صرف یہی فرق نہیں، بلکہ دسیوں  اور بھی فرق ہیں  اور ان میں  سے ایک اجتماعی عدالت کا مسئلہ ہے۔ انبیاء کی الٰہی اور توحیدی حکومتوں  کے علاوہ دنیا کی کسی بھی حکومت کے پیش نظر کبھی بھی انسان کی معنویت کو اہمیت نہیں  دی گئی، کسی نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں کی کہ انسان کی معنویت کو ارتقا دے۔ ان کے پیش نظر صرف ایک ہی ہدف تھا اور وہ یہ کسی طرح اس مادیت سے فائدہ حاصل کریں  اور عالم میں  ایک مادی نظام قائم کریں ۔

انبیاء اس لیے آئے ہیں  کہ انسانی نفوس کا تزکیہ کریں، انسان کی تربیت کریں، کتاب کی تعلیم دیں، اسے حکمت سے آراستہ کریں  اور اس کی مادیت کو  لگام دیں، اگر انبیاء (ع) انسان کی اصلاح نہ کریں  اور اس کی مادیت کو مہار نہ کریں  تو وہ سب کچھ اپنے لیے چاہے گا، چونکہ انسان بھی اس عالم کے موجودات کا ایک حصہ ہے اور وہ ایک حیوان ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ قابل تربیت ہے۔ انسان کے اندر پائے جانے والی کوئی بھی قوت محدود نہیں  ہے، نہ انسان کی شہوت محدود ہے کہ دوسرے حیوانات جیسا اس کا بھی کوئی نظام ہو، بلکہ انسان دیگر تمام حیوانات سے بدتر ہے۔ انسان کا غیض وغضب بھی لامحدود ہے۔ اس طرح نہیں  کہ ایک مسئلہ میں  غصہ کرے اور وہ ٹھنڈا ہوجائے۔ ممالک اور دوسرے گروہوں  پر قبضہ اور تسلّط وبرتری کی صفت بھی کسی حد تک محدود نہیں  ہے کہ کسی ایک پر غلبہ حاصل کرلے تو اس کے تسلّط وبرتری کی پیاس بجھ جائے۔ دوسری قوتوں  کی مانند اس کی شہوت بھی کسی حد وحدود کی قائل نہیں  ہے۔ اس جہت سے تمام انسان ایک جیسے ہیں  اور ان میں  کسی قسم کا کوئی فرق نہیں  ہے۔ انسان اگر کسی پر غیض وغضب کرے تو اس کی کوئی حد نہیں  کہ جہاں  جا کر اس کے غضب کی آتش خاموش ہوجائے، مگر یہ کہ اسے لگام دی جائے اور کچھ ایسے افراد ہوں  کہ جو اس کی ان قوتوں  کو لگام دیں ۔ انبیاء اس لیے آئے ہیں  کہ خدا کی طرف سے عطا کردہ تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفس کے ذریعہ انسان کی ان غیر محدود قوتوں  کو مہار کریں۔

صحیفہ امام، ج ۸، ص ۳۵۴

ای میل کریں