حضرت علی (ع) سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو انکی صفات بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی مسجد جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن میں نماز جمعہ کے خطبہ میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ کائنات کا خالق،مدبّر، مدیر اور رب فقط اللہ تعالیٰ ہے۔ نہ اس کے بنانے میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ چلانے میں۔انبیاء، اولیاء یہی پیغام دیتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات قرآن مجید میں بہت زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت کے حوالے سے انہوں نے علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاون میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا کہ علیؑ کی عظمت کے بارے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ اہل سنت کی بعض کتب میں زیادہ فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ معتبر کتب اہل سنت میں ہے کہ رسول اللہ نے علی کے بارے اللہ سے وہ دعا مانگی جو حضرت موسیٰ نے ہارون کے لئے مانگی تھی کہ اسے وزیر بنا، اس کے ذریعے قوت و طاقت عطا فرما۔البتہ مکتب اہل بیت کا نکتہ نظر یہ ہے کہ رسول اکرم کوہر چیز سوال کئے بغیر اللہ نے عطا فرما دی تھی جن میں علی جیسا بھائی اور جانشین بھی ہے۔ حضرت علیؑ نے جس طرح علوم سکھائے اور کسی نے نہیں۔رسول اللہ نے انہیں سب سے بڑا منصف ، سب سے بڑا زاہد قرار دیا تھا۔ ساری رات عبادت کرتے۔
حافظ ریاض نجفی نے زوردیا کہ علی سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو عظیم ہستی کی کچھ صفات بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیں،پھر یہ دعویٰ سچا ہوگا۔ سخاوت، حلم، علم، عبادت اور دیگر صفات اپنے اندر پیدا کریں۔ مظلوم کی حمایت، عبادات کی پابندی کریں۔یہ معصوم ہستیاں برق رفتاری سے ان راہوں پر گامزن تھیں تو ہم چیونٹی کی رفتار سے ہی سہی مگر ان کی راہ پر چلیں تو سہی۔چیونٹی بھی آخرِ کار منزل پر پہنچ ہی جاتی ہے۔علی کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا اور حکم کے مطابق تھا۔
انہوں نے کہا کہ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب 1465سال قبل جمعہ کے دن خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔حضرت موسیٰ اور حضرت علی میں کافی مماثلت ہے۔ ” حدیثِ منزلت“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ؑسے فرمایا تھا ” میرے نزدیک آپ کا وہی مقام و منزلت ہے جوہارون کا موسیٰ سے تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ا نہوں نے کہا کہ علی ؑ وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے خاتم الانبیا کے بعد اسلام کی حفاظت، لوگوں کی تربیت کرنا تھی۔آپ کے والد حضرت ابو طالب علیہ السلام مکہ کے سردار اور ہاشمی تھے، والدہ جناب فاطمہ بنت اسد بھی ہاشمی تھیں۔یہ کائنات کی واحد خاتون ہیں جنہیں رسول اکرم اپنی ماں کہتے تھے اوران کی وصیت کے مطابق آپ نے انہیں دفن کیا اور اپنا پیراہن بطور کفن عطا فرمایا۔یہ بی بی بچے کی پیدائش کے وقت کعبہ کے قریب تشریف لائیں اور اپنے ایمان کا اظہار کر کے دنیا پر واضح کیا کہ ہم صاحبانِ ایمان ہیں۔
کچھ لوگ حضرت ابوطالبؑ کے ایمان پر محض علی کے والد ہونے کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں ،ورنہ قرآن مجید میں ان کے ایمان کی گواہی ان آیات میں خدا نے دی ہے جن میں حضور کی نصرت کرنے اور پناہ دینے والے کو حقیقی مومن قرار دیا گیا۔حضرت فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے نزدیک آکر بطن میں موجود بچے کا واسطہ دے کر ولادت کی آسانی کی دعا مانگی۔کعبہ کی دیوار شگافتہ ہو گئی۔بی بی اندر داخل ہوئیں اور کعبہ کے وسط میں علی پیدا ہوئے۔ یہ کعبہ میں پیدا ہونے والا پہلا اورآخری بچہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی عطا کی ہوئی چند نعمتیں گنوانے کے بعد حضور کو حکم دیا تھا فازا فرغت فانصب یعنی غدیر میں علی کی ولایت کا اعلان کریں۔علی کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا اور حکم کے مطابق تھا۔اگر 25 سال خاموش رہنا پڑا تو بھی منشائے الہٰی کے مطابق خاموش رہے۔ شبِ ہجرت دشمنوں کے محاصرے میں ذرا بھر خوف محسوس نہ کیابلکہ فرمایا اسی رات تو سکون کی نیند آئی۔جب رسول اللہ کی امانتیں لوگوں کو واپس کرنے لگے تو بعض لوگوں نے زیادہ مطالبہ کیا۔فرمایا ان امانتوں سے پوچھ لیتا ہوں کس کی کتنی ہے؟ حضور کا آپ کے حق میں یہ فرمانا بہت بڑا اعزاز ہے انا مدینة العلم و علی بابھا میں علم کا شہر اور علی اس کا در ہیں۔