تربیت بشر کیلئے انبیاء کی بعثت

تربیت بشر کیلئے انبیاء کی بعثت

انسان اگر اسی مادیت کی حد تک محدود رہتا تو اس کی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس بات کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس کی تربیت کیلئے عالم غیب سے کچھ نازل کیا جائے

تربیت بشر کیلئے انبیاء کی بعثت

انسان اگر اسی مادیت کی حد تک محدود رہتا تو اس کی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس بات کی بھی ضرورت نہیں  ہوتی کہ اس کی تربیت کیلئے عالم غیب سے کچھ نازل کیا جائے۔ مادیت کو تربیت کی ضرورت ہی نہیں  ہے اور چونکہ اس میں  تربیت کی صلاحیت نہیں  ہوتی لہذا اس کی ضرورت بھی نہیں  تھی۔ لیکن انسان اس عالم مادیت سے الگ ایک جدا حقیقت کا نام ہے اور مادے میں  موجود خصوصیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں  اس مادے کے ماوراء ایک اور عالم ہے اور انسان بھی اپنے مادی پہلو کے علاوہ ایک اور وجود رکھتا ہے۔ فلسفہ کے برہان سے یہ بات ثابت ہے کہ اس مادی انسان کے ماوراء کچھ اور بھی ہے اور انسان بالامکان عقل مجرد کا مالک ہے اور بعد میں  مجرد تام (مکمل طورپر مادے سے الگ) ہوجائے گا۔ تربیت، انسان کے معنوی پہلو کی تعمیر وترقی کیلئے ہے لہذا یہ تربیت ایسا شخص انجام دے کہ جو انسان کے اس معنوی پہلو کا حقیقی اور کامل علم رکھتا ہو اور انسان، مادیت اور معنویت کے مابین روابط وتعلقات سے اس طرح آگاہ ہو کہ انہیں  درک کرسکے اور یہ کام عام انسان کے بس کی بات نہیں ، عام انسان تو صرف اپنے مادی پہلو کا ہی ادراک کرسکتاہے۔ عالم ماورا الطبیعہ ومادہ کو لاکھ کوششوں  کے باوجود بھی مائیکرو اسکوپ (ذرہ بین) سے نہیں  دیکھا جاسکتا ہے۔ اس عالم کا ادراک اس بات کا محتاج ہے کہ اسے ایک اور معنی کی نگاہوں  سے دیکھا جائے۔ چونکہ مادیت ومعنویت کے مابین یہ روابط وتعلقات بشر پر مخفی ہیں  اور خداوند عالم جو تمام اشیا کا خالق ہے، ان تمام امور سے با خبر وعالم ہے۔ اس جہت سے خداوند عالم کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ان خاص افراد سے متعلق ہوتی ہے اور وہ انسان اور عالم وحی کے درمیان روابط وتعلقات کو سمجھ لیتے ہیں  کہ جنہوں  نے کمال حاصل کیا ہے اور معنوی کمالات کو سمجھا اور اس راہ پر قدم اٹھایا ہے۔ چنانچہ خدا ایسے افراد پر وحی کرتا ہے اور وہ انسان کے اس دوسرے (معنوی) پہلو کیلئے مبعوث کیے جاتے ہیں  اور یہ شخصیات لوگوں  کے درمیان آکر ان کی تربیت کرتی ہیں ۔

(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۸۸)

 

انبیاء (ع)  کا واحد ہدف

اگر انبیاء کے نورانی وجود کو اس نظام ہستی سے نکال دیا جائے تو ہم صرف ایک حیوان کی مانند رہ جائیں گے کہ ہمارے لیے جو کچھ ہے یہی طبیعت ومادیت ہے اور ہمیں  اس سے زیادہ کسی اور چیز کا ادراک نہیں  ہوگا۔ اگر ہمیں  اس عالم میں  لے جایا جائے اور ہمیں  تیار کیا جائے کہ جب ہم اس مادی عالم سے اس عالم میں  منتقل ہوں  تو یہ سمجھ لیں  کہ اس عالم کی زندگی سعادتمند اور شرافتمند زندگی ہے۔ تمام انبیاء  ؑ کی آمد کی غرض یہی تھی کہ اس بشر کی تربیت کریں  جو تربیت کیے جانے کے قابل ہے اور دیگر تمام حیوانات سے مافوق اور جدا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح انسان اس دنیا میں  (اگر مادیت وطبیعت کے تمام امکانات اس کے پاس موجود ہوں ) ایک سعادتمند زندگی رکھتا ہے اسی طرح وہ اس دنیا میں  بھی ایک با سعادت زندگی کا مالک ہو۔

(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۸۸)

ای میل کریں