انقلاب اسلامی ایران کے پیغامات
تحریر: فدا حسین ساجدی
کوئی بھی سانحہ انسانی تاریخ میں رونما ہوتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں، اگر وہ سانحہ انسانیت کے مفاد میں ہو اور انسانی و فطری اصولوں کے مطابق ہو تو وہ واقعہ اپنے اندر انسانوں کی سعادت اور کامیابی کے لئے بہت سارے دروس اور پیغامات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر وہی حادثہ انسانیت کے خلاف اور انسانی اصولوں کو پامال کرنے کی خاطر ہو تو اس حادثے میں انسانوں کے لئے عبرت ہوتی ہے۔ اسلامی انقلاب جو ایران کی سرزمین پر 20 ویں صدی میں رونما ہوا، یہ انسانی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ تھا اور یہ واقعہ بیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نام پر تمام انسانی اصول اور انسانیت کو پامال کرنے والے قوانین کے خلاف اللہ کا بڑا تحفہ تھا۔ اس بڑے حادثے نے یہ ثابت کر دیا کہ معنویت کو ہمیشہ مادیت پر فتح حاصل ہوتی ہے، انقلاب اسلامی ایران میں پورے عالم اسلام اور دنیا کے مستضعف لوگوں کے لئے بہترین دروس اور پیغامات موجود ہیں۔ ہم اس مختصر کالم میں چند اہم دروس اور پیغامات انقلاب اسلامی ایران کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے پرتو میں مسلمان عالم اور مستضعفین، اپنی فردی اور اجتماعی زندگی کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو کو بہتر بنا سکیں۔
صبر و استقامت
صبر اور استقامت ایک ایسی عظیم صفت ہے، جو انسان کو بڑی رکاوٹوں کو دور کرکے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، ایرانی قوم نے حضرت امام خمینی جیسی شخصیت کی قیادت میں صبر و استقامت کا ایسا جوہر دیکھایا، جس کے نتیجے میں 2500 سالہ شہنشاہی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بڑے پیمانے پر الہیٰ نظام کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک بہت بڑا درس ہے، جس سے استفادہ کرکے دوسرے ممالک کے مسلمان اور عوام بھی اپنے ملکوں کے ظالم حکمران اور ظلم و فساد کی جڑیں اکھاڑ پھینک سکتے ہیں، اپنے پاوں پر کھڑا ہونا دوسروں کے سامنے ہاتھ بڑھانا نہ صرف ناکامی ہے بلکہ بہت بڑی ذلت بھی ہے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنا اور دوسروں کے تیار کردہ چیزوں کی خواہش رکھنا غلاموں کی عادت ہے، آزاد اور غیرت مند لوگ ہمیشہ اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایرانی قوم بھی انقلاب سے پہلے کافی حد تک امریکا اور روس کی غلامی میں تھی اور اپنی معدنیات اور ذخائر کو بھی دوسروں کے اختیار میں دیئے ہوئے تھے، درآمدات پر گزارہ کرتی تھی جبکہ برآمدات نامی کوئی چیز نہیں تھی، لیکن امام خمینی (رہ) نے ان کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونا سکھایا اور وہ لوگ امام کی قیادت میں پابندیاں اور دیگر مسائل کی وجہ سے تن من دھن کے ساتھ معیشت ٹیکنیکل، میڈیکل اور فوجی شعبوں میں ترقی اور خود مختاری کی طرف بڑھے اور کامیاب ہوئیں۔ نتیجتاً جو ملک انقلاب کے شروع میں کانٹے دار تار کا سخت محتاج تھا، اب نظام ساز و سامان میں ترقی یافتہ ترین ملکوں میں اس کا شمار ہوتا ہے، لہذا اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ایک بہترین پیغام ہے، جو دوسرے اقوام اسلامی انقلاب سے لے سکتے ہیں۔
قومی اتحاد و یکجہتی
قوموں کی زندگی میں اتحاد و اتفاق ہی وہ طاقت ہوتی ہے، جس کی بدولت وہ مشکلات پر قابو پا کر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہیں اور اختلاف و ناچاقی سے بدترین ناکامی اور شکست کا سامنا ہوتا ہے، ایران میں تمام سپرپاور طاقتوں کی حمایت یافتہ شہنشاہی حکومت سے دست خالی، نبردآزما ہو کر ایرانی قوم نے فتح حاصل کی ہے، تو یہ ان کے قومی اتحاد و اتفاق کی مرہون منت ہے، اتحاد ایک الہیٰ اور دینی فریضہ ہونے کے علاوہ کامیابی کا واحد راستہ ہے اور اتحاد کی نمایاں مثال ہمیں انقلاب اسلامی میں نظر آتی ہے، یہ اتحاد بھی دوسرے اقوام کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے، دوسرے ملکوں میں مسلمان ہر طرح کی بدبختی اور ناکامی سے دوچار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ان کے آپس میں اختلاف اور انتشار ہے، کبھی زبان کی بیس پر کبھی قومیت تو کبھی مذہب کو بہانہ بنا کر مسلمان اقوام تقسیم در تقسیم ہوچکے ہیں، جس سے فائدہ اٹھا کر عالمی استکبار اور اسلام دشمن عناصر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ دوسرے ممالک کے مسلمان انقلاب اسلامی ایران سے اتحاد و اتفاق کا درس لیتے ہوئے سب اکٹھے ہوکر مشترکہ دشمن امریکا اور اسرائیل کے خلاف جنگ لڑے اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے ان کے ایجنڈوں کے نحس وجود سے اپنی سرزمین کو پاک کریں۔
ظالموں سے مقابلہ مظلوموں کی حمایت
مولا علیؑ نے فرمایا: حکومتیں کفر سے چل سکتی ہیں مگر ظلم سے نہیں، اس حکیمانہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ظلم سے کسی بھی معاشرے میں ثبات نہیں آسکتا اور اسی لئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور امن و امان کی فضاء قائم کرنے کی راہ میں ظلم، ظالم حکمران اور ظالمانہ پالیسیز بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں، اسی وجہ سے اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کے مکتب میں ظالم سے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت پر بہت تاکید ہوئی ہے، انقلاب اسلامی نے ابتدا ہی سے اس اہم دینی اور انسانی فریضہ پر عمل کیا اور دنیا کے ظالم حکمرانوں جن میں سرفہرست رضا شاہ پہلوی تھا، ان سے پرزور مقابلہ کیا اور مظلوموں کی حمایت سے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، جس کی بہترین مثال فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے۔ لہذا دوسرے ممالک کے باشندے اگر مختلف شعبوں میں کامیابی اور امن و امان کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں تو انقلاب اسلامی ایران سے درس لیتے ہوئے ظالموں سے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کو اپنا فرض عین قرار دیں۔
عالمی استکبار کی غلامی سے آزادی
عالمی استکبار ہمیشہ دوسرے اقوام کو اپنی غلامی کی زنجیر میں جگڑ کر ان کی غیرت، حمیت اور ایمان کو پائمال کرکے ان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ امام خمینی(رہ) نے اپنی بصیرت سے عالم استکبار کی صحیح شناخت کرائی اور ایرانی قوم نے اس مطلب کو درست بھانپتے ہوئے اپنے آپ کو ان کی غلامی سے چھڑانے کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں، اب سربلند اور سرخرو ہوچکی ہیں، لہذا مستضعفان عالم اور پیروان خاتم، اگر اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں اور عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد ذریعہ اپنے نفس، خواہشات نفسانی، مادیت، خاص کر عالم استکبار کی غلامی سے آزاد ہونا ہے۔
باصلاحیت قیادت کی اطاعت
قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے، لیکن قائد کی پہچان اور اس میں پائی جانے والی صفات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایرانی قوم کی بصیرت کو ہم سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے امام خمینی جیسی عظیم شخصیت کی شناخت کی اور ان پر اپنی جانیں نچھاور کیں اور ان کی گرد پروانوں کی طرح اکٹھے ہوگئی، ان کی بے نظیر قیادت میں اپنے مقدس اور بلند اہداف کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، جس وجہ سے اب ایرانی قوم ایک رول ماڈل کے طور پر پوری دنیا میں متعارف ہوئی ہے۔ دیگر اقوام عالم بھی اگر کامیابی اور کامرانی کی چوٹیوں کو سر کرنا چاہتی ہیں تو ان کے لئے امام خمینی جیسی قیادت کی ضرورت ہے، اسلامی ممالک میں لائق اور مناسب شخصیات کی کمی نہیں صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شناخت کرکے ان کی اتفاقی طور پر پیروی کی جائے۔