امام خمینی اور زہد و تقویٰ

امام خمینی اور زہد و تقویٰ

امام خمینی کے بارے میں دوستوں اور دشمنوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایک حقیقی عابد اور زاہد تھے

امام خمینی اور زہد و تقویٰ

 

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

 

امام خمینی کی زندگی کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے آپ نے رسول خدا  (ص) اور آئمہ علیہ السلام کی سیرت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں سیرت محمد و آل محمد کی پیروی نظر آتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفہ اور حکماء کا یہ کہنا ہے کہ انسان کے کمال میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا سے محبت اور وابستگی ہے۔ اگر انسان پر دنیا کی زرق برق اور ظاہری چمک دمک غالب آجائے تو اسن کی روح مجروح اور اس کا کمال کا سفر رک جاتا ہے۔ حب دنیا انسانی اقدار کی کمزوری کا بڑا وسیلہ ہے، عرفاء اور فلاسفہ کا یہ کہنا ہے کہ دنیا کے ظاہری جلوئوں اور چمک دمک سے محفوظ رہنے کا بہترین راستہ زہد و تقویٰ ہے۔ ایک عابد و زاہد دنیا سے لاتعلقی اور بے رغبتی کا اظہار کرکے ایک آزاد انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ دنیا کے جھبیلوں سے آزاد ہو کر روحانی پرواز کے لیے آمادہ و تیار ہو جاتا ہے۔ زاہد ایک پاک سیرت فرد ہوتا ہے، جو اپنی معرفت کی بلندی کی وجہ سے دنیا کی چند روزہ زندگی کے دام میں گرفتار نہیں ہوتا۔ایک حقیقی زاہد اپنی امیدیں خدا سے وابستہ کر لیتا ہے اور دنیا کی لذتوں کی بجائے حقیقی اور ہمیشہ رہنی والی لذتوں یعنی لقاء اللہ کو مدنظر رکھتا ہے۔

 

امام خمینی کے بارے میں دوستوں اور دشمنوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایک حقیقی عابد اور زاہد تھے، وہ دنیا کے تعلقات سے بے بہرہ اخروی اہداف کو ترجیح دیتے تھے۔ امام خمینی کی زندگی انتہائی سادہ اور تکلفات سے عاری تھی۔ آپ نے زندگی کا یہ انداز اپنے بزرگان دین سے حاصل کیا ہے۔ آپ رسول خدا، آئمہ معصومین بالخصوص امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے تھے۔ گویا امام خمینی کی عابدانہ، زاہدانہ اور عارفانہ زندگی کا منبع اور بنیاد الہیٰ تعلیمات تھیں۔ امام خمینی کے لیے رسول خدا کی سادہ زندگی ایک نمونہ عمل تھی۔ آپ کی سیرت کے حوالے سے نقل ہوا کہ ایک بار عمر بن خطاب رسول خدا کے حجرے میں داخل ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک بوریا پر دراز تھے۔ بوریئے کے نشان آپ کے بدن مبارک پر نظر آرہے تھے۔ آپ کے پاس جو کی معمولی روٹی پڑی ہوئی تھی۔ رسول خدا کی یہ حالت دیکھ کر ان پر گریہ طاری ہوگیا۔ رسول خدا نے فرمایا، اے پسر خطاب رو کیوں رہے ہو۔ ابن خطاب نے کہا، کیوں نہ گریہ کروں آپ خدا کے برگزیدہ نبی ہیں اور آپ کی زندگی کا یہ انداز ہے، حالانکہ قبود خسرو انواع و اقسام کے پھلوں اور دیگر نعمات سے مالا مال ہیں۔ آپ نے فرمایا، ابن خطاب تم اس پر خوش نہیں ہو کہ دنیا ان کی اور آخرت ہماری ہو۔

 

امام خمینی کے لیے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت مبارکہ ایک نمونہ عمل رہی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام رسول خدا کی زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول خدا نے اس دنیا سے اس قدر نہ کھایا کہ آپ کا دھن مبارک پر ہو جائے، وہ دنیا پر نگاہ ہی نہیں کرتے تھے۔ آپ کے دونوں پہلو بھوک کی وجہ سے اندر کی طرف دبے ہوئے تھے۔ آپ کا شکم مبارک دوسروں کی نسبت ہمیشہ خالی رہتا۔ دنیا کو ان کے سامنے بار بار پیش کیا گیا، لیکن آپ نے ہمیشہ دنیا کو مسترد کر دیا۔ عام افراد کی طرح زمین پر بیٹھتے، غلاموں کے ساتھ کھانا کھا لیتے، عام انسانوں سے بھی زیادہ سادہ زندگی گزارتے، اپنے جوتوں کو خود مرمت کرتے، اپنا لباس خود بنتے۔ ایک بار آپ کے دوازے پر ایک کپڑا لٹکا ہوا تھا، جس پر کچھ نقش و نگار تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے ایک سے کہا کہ اس پردے کو میری نگاہوں سے دور کر دو، کیونکہ جب بھی اس پر میری نگاہ پڑتی ہے، دنیا کی زیب و زینت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں۔ رسول خدا نے اس دنیا سے کبھی دل نہ لگایا اور اس کی یاد کی خبروں کو بھی اپنے قلب و ذہن سے نکال باہر کر دیا تھا۔

 

امام خمینی بھی سیرت معصومین کی پیروی میں نہ صرف خود سادہ زندگی بسر کرتے تھے بلکہ علماء اور مذہبی طبقے کی دنیا پرستی کے بارے میں بھی پریشان و تشویش میں مبتلا رہتے تھے۔ آپ اکثر اوقات علماء کو دنیا کی رنگینیوں سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ آپ علماء اور اسلامی حکومت کے حکام کو بارہا اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ دنیا کی آسائشوں اور رنگینیوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لو۔ آپ فرماتے تھے کہ میں علماء کی کامیابی اور معاشرے میں ان کے نفوذ کی بڑی وجہ ان کے علم اور زہد کو سمجھتا ہوں اور آج بھی نہ صرف یہ اقدار فراموش نہیں ہونی چاہیئں بلکہ ان میں ماضی کی نسبت اضافہ ہونا چاہیئے۔ علماء کے لیے دنیا پرستی سے بدتر کوئی چیز نہیں اور دنیا پرستی سے زیادہ کوئی چیز علماء اور روحانیت کو آلودہ نہیں کرسکتی۔

 

آپ ایک اور مقام پر علماء کو سادہ زندگی گزارنے اور زہد و تقویٰ اپنانے پر تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں ایک بوڑھے باپ کی حیثیت سے اپنے تمام علماء، جو میرے فرزندوں کی طرح ہیں، ان سے اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ خداوند عالم نے علماء اور روحانیت پر احسان کیا ہے اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی ہے اور انبیاء رسالت کی تبلیغ کا عظیم فریضہ انہیں سونپا ہے تو علماء کے درجے اور مقام سے نیچے نہ آئیں اور دنیا کی چمک دمک میں غرق نہ ہو جائیں، کیونکہ یہ نہ علماء کے شایان شان ہے نہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے شایان شان ہے۔ خبردار رہیں کہ علماء کے لیے دنیا پرستی سے زیادہ کوئی بھی بڑا مسئلہ اور خطرہ اور نہیں ہے۔ علماء دنیا کی آسائشوں اور سہولیات میں گم نہ ہو جائیں۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ ماضی میں علماء نے الحمداللہ اسلام سے کمٹمینٹ کا فریضہ نبھایا ہے، لیکن دشمن سے اور بالخصوص اسلام کے سخت ترین دشمنوں سے ہوشیار رہیں، وہ علماء اور اس طبقے کا چہرہ خراب کرنے میں کامیاب نہ  ہو جائیں۔ وہ اسلام کے اس چہرے کو خراب کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کریں گے۔ پس علماء متوجہ رہیں، وہ ماضی میں ناکام رہے، انشاء اللہ آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

 

امام خمینی اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو حضرت امیر المومنین کی حکومت کے حکام کی سادہ زندگی اور زہد کی مثالیں دے کر انہیں سیرت آئمہ پر چلنے کی تلقین فرماتے تھے۔ بے شک امیرالمومنین زہد و تقویٰ اور قناعت و سادہ زیستی کا اعلی نمونہ تھے۔ حضرت علی کی خلافت کے دور سے ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک بار آپ کے مقرر کردہ حاکم عثمان بن حنیف انصاری نے بصرہ کے ایک نوجوان کی شادی کی ایسی تقریب میں شرکت کی، جس میں بہت زیادہ نمود و نمائش اور فضول خرچی کی گئی تھی۔ آپ کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو آپ نے عثمان بن حنیف کے نام ایک تادیبی خط روانہ کیا۔ اس خط میں لکھا "یاد رکھو! ہر مسلمان کا ایک پیشوا ہے، جس کی اسے پیروی کرنا چاہیئے، تاکہ اس کے لیے روشنی واقع ہو۔ تو جان لے کہ تمھارے پیشوا کا لباس کھردرا اور پھٹا ہوا اور اس کی خوراک جو کی روٹی ہے اور وہ اسی پر قناعت کرتا ہے۔ تم میری طرح زندگی نہیں گزار سکتے، لیکن زہد و پاکدامتنی اور حق و انصاف کی کوشش میں میرا ساتھ دو۔

 

خدا کی قسم میں نے اس دنیا سے سونے کے درہم و دینار اکٹھے نہیں کیے اور اس مال و دولت سے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کی ہے اور اس پرانی ردا کہ جو میرے بدن پر ہے، اپنے لیے کوئی اور لباس بچا کر نہیں رکھا ہے۔ میرے لیے یہ آسان ہے کہ پاک و صاف شہد، گندم کی بہترین روٹیاں اور ریشمی لباس سے استفادہ کروں، لیکن اپنے آپ کو ان فریب دینے والی اشیاء سے دور رکھا ہے۔ میرے لیے گوارا نہیں کہ اپنے دہن کو حرص و لالچ سے ان خوش مزہ کھانوں سے آشنا کروں۔ سادہ زیستی اور زہد و تقویٰ امام خمینی کی زندگی کا خاصہ تھا۔ آپ نے انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اپنی اس روش زندگی کو جاری رکھا۔ ایک ایسے وقت جب پورا ایران آپ کی ایک آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار تھا اور آپ سب کے دلوں پر راج کرتے تھے، آپ نے اس وقت بھی انبیاء و آئمہ کی روش کو ترک نہ کیا۔ آپ نے اپنی آمد کے وقت بھی کسی طرح کے جشن اور خوشی کے اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دی۔ آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ میں ایک دینی طالبعلم تھا، ملک سے چلا گیا اور اب بھی ایک دینی طالبعلم ہوں، واپس ایران آگیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی عوام کے ساتھ رہوں اور ان کے ساتھ آگے بڑھوں، چاہے پائمال ہو جائوں۔ امام خمینی کی زندگی کا یہ سادہ انداز بہت سے غیر ملکیوں کے لیے ایک نئی اور عجیب بات تھی۔

 

میجر حسین مرتماصی نقل کرتے ہیں کہ انقلاب کی سالگرہ کے ایام تھے، بہت سے غیر ملکی مہمان امام خمینی کی خدمت میں پہنچے، ان میں سے ایک امریکی مسلمان تھا۔ صاف ستھرے سفید چہرے اور لمبی داڑھی کے ساتھ۔ یہ مسلمان جب ملاقات کے بعد امام خمینی کی دست بوسی کے لیے آگے بڑھا تو اس پر گریہ طاری ہوگیا۔ اس پر ملاقات کے بعد بھی یہی کیفیت طاری رہی۔ اس کے اس گریے نے سب کو متوجہ کیا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی عربی میں یہ کہہ رہا تھا کہ کیا خمینی کا سب کچھ یہی کچھ ہے۔ کیا امام خمینی کا پورا گھر وغیرہ یہی ہے۔ میں نے کہا جی ہاں، امام خمینی کا یہی گھر ہے اور وہ بھی کرایہ کا۔ یہ ملاقات جماران میں انجام پائی تھی۔ جماران میں امام کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اور جہاں ملاقات ہوتی تھی، اس کمرے کا سامنے والا صحن پلاسٹک سے ڈھکا ہوا تھا اس امریکی مسلمان کے لیے ناقابل یقین تھا کہ اتنے بڑے انقلاب کا رہبر ایران جیسی امیر مملکت کا سربراہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے۔ ایک امریکی مسلمان کیا، کسی بھی فرد کے لیے امام خمینی کی یہ سادہ زندگی عام بات نہ تھی۔ جب تک وہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتا تھا، اس کو یقین نہیں آتا تھا۔ امام خمینی نے اپنی تمام زندگی بالخصوص انقلاب کی کامیابی کے بعد جس سادگی اور قناعت سے گزاری، اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔

ای میل کریں