عطار نیشاپوری کے عارف ہونے کی عجیب کہانی

عطار نیشاپوری کے عارف ہونے کی عجیب کہانی

خالق موجودات کی موجود میں افضل اور اشرف مخلوق انسان ہے

عطار نیشاپوری کے عارف ہونے کی عجیب کہانی

 

13/ اپریل عطار نیشاپوری کی عظمت بیانی اور تجلیل مقام کا دن ہے۔ فارسی ادب کے ایک بلند پایہ اور نامور اور مشہور شاعر اور عارف شخص تھے۔ یہ چھٹی صدی ہجری کے اختتام اور ساتویں ہجری کے آغاز کے دور کے شاعر ہیں۔ یہ نیشاپور کے علاقہ کدکن میں 540/ ہجری میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا نام "محمد"، لقب "فرید الدین" اور کنیت "ابوحامد" ہے انہوں نے اپنے اشعار میں زیادہ تر عطار اور کبھی فرید بھی تخلص رکھا ہے۔ ان کے والد عطار ابراہیم کدکنی اور ان کی ماں رابعہ تھیں۔

انہوں نے دواسازی اور عرفان شیخ مجد الیدن بغدادی سے سکھا تھا اور دوا فروشی اور بیماروں کا معالجہ کرنے کا کام شروع کردیا۔ بعض لوگوں نے انہیں اہلسنت جانا ہے لیکن عصر حاضر میں شیعوں نے ان کے بعض اشعار کو بطور سند پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ کچھ برسوں بعد شیعہ ہوگئے تھے یا اہلبیت (ع) کے دوستدار تھے۔ اگر چہ انہوں نے منطق الطیر کتاب میں تعصب رکھنے والوں کی مذمت اور ملالت کی ہے اور ایسے لوگوں کو تائید کی ہے کہ اہلبیت (ع) کے محب بھی ہوں اور خلفاء کے دوست بھی۔

عطار کے دنیاوی مال و متاع کو لات مارنے، گوشہ نشینی، زہد و تقوی کی راہ اختیار کرنے کے بارے میں بہت ساری داستانیں نقل ہوئی ہیں۔ مشہورترین داستان یہ ہے کہ عطار اپنی دوکان میں کام کررہے تھے کہ وہاں سے ایک درویش اور فقیر گذرا۔ اس نے عطار سے اپنی درخواست کی لیکن عطار اسی طرح اپنا کام کرتے رہے اور اس کی جانب کوئی توجہ نہ دی۔ یہ دیکھ کر درویش کا دل میلا ہوا اور عطار سے کہا: تم اس درجہ دنیاوی زندگی سے دل لگائے ہوئے ہو تو کس طرح ایک دن جان دوگے؟ عطار نے درویش سے کہا: تم کس طرح اپنی جان دوگے؟ درویش نے اسی حال میں اپنا لکڑی کا پیالہ سر کے نیچے رکھا اور جان خالق کے حوالہ کردی۔ اس واقعہ سے عطار پر گہرا اثر پڑا اور عطار دگرگوں ہوئے۔ اپنا کام چھوڑا اور راہ حق اختیار کرلی۔

جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ عطار اس واقعہ کے بعد شیخ رکن الدین نیشاپوری کے مرید ہوگئے اور آخری عمر (تقریبا 70/ سال تک) اپنے زمانہ کے بہت سارے عرفاء کے ساتھ ہم سخن رہے اور صوفیہ و اہل سلوک کی داستانوں کی جمع و تالیف میں لگ گئے۔

خالق موجودات کی موجود میں افضل اور اشرف مخلوق انسان ہے۔ خداوند سبحان نے اسے عقل و شعور کی قیمتی دولت نوازا ہے اور اس کے لئے اپنی جانب سے انبیاء و مرسلین و ائمہ طاہرین کی شکل میں ہادی اور مرشد بھیجے ہیں اور زندگی گذارنے طور و طریقہ کے لئے قرآن جیسی کتاب نازل کی ہے۔ اگر انسان اپنی قدر و قیمت جانے اور اپنی عمر کے ہر لمحہ کو اللہ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق گذارے اور اپنی انسانیت کو زندہ و تابندہ رکھے اور اپنے وجود کو فیوضات الہی کا ذریعہ سمجھے اور لوگوں کو فائدہ پہونچائے اور خدمت خلق کرے اور اپنے علمی، فکری، سیاسی، سماجی اور عملی کارنامے سے خدا و رسول کو خوش کرے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتا ہے۔

خداوند عالم ہم سب کو اپنی عمر کے ہر لمحہ کی قدر کرنے اور خدمت خلق کرنے کی توفیق کرے اور اپنی ہدایت سے نوازے۔

ای میل کریں