امام حسین (ع) سے لاتعلق رہنے والے افراد کون تھے
تحریر: توقیر کھرل
شہدائے کربلا میں امام حُسین علیہ السلام کے اصحاب بے پناہ خصوصیات و خوبیوں کے حامل تھے، کوئی حافظ قرآن ہے تو کوئی احادیث کا راوی۔ کوئی قبیلے کا سردار تو کوئی معروف پہلوان۔ ہر سپاہی منفرد خصوصیت کا حامل تھا۔ دوسری جانب لشکرِ کوفہ و شام کے افراد میں بھی حافظ قرآن اور راویان احادیث جیسی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ایک اور طبقہ بھی تھا، جنہوں نے لشکرِ یزید میں شمولیت تو اختیار نہیں کی تھی، لیکن امام حُسین علیہ السلام کے قیام کے حامی نہ تھے۔ یہ عام افراد نہیں تھے بلکہ اِن کا شمار خواص میں ہوتا ہے۔ بہت سے ایسے اشراف بھی تھے جو مصلحت کے تحت خود کو دونوں فریقوں سے غیر جانبدار رکھ کر تہہ خانوں میں روپوش رہے اور سطح زمین پر جو کچھ ہو رہا تھا، اس سے چشم پوشی کرتے رہے۔
بعض نے تو یہاں تک کہا کہ ہم کون ہوتے ہیں جو بادشاہوں کے امور میں دخل اندازی کریں۔ یہی وہ خواص کا گروہ ہے، جنہوں نے امام حُسین کو اِن حالات میں لشکر یزید سے مظلومیت کی حالت میں نبرد آزما ہونے پر مجبور کیا اور امام حؐسین سے بوقت قیام لاتعلق رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصحاب امام حُسین میں وہ کونسی خصوصیات تھیں، جو انہیں لشکر یزید اور غیر جانبدار یا لاتعلق رہنے والے خواص کے گروہ سے منفرد کرتی ہیں۔ امام حسین کے حامیوں میں ایسے خواص ضرور موجود تھے، جو امام کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے، اُن کی شان میں امام حؐسین نے فرمایا تھا: "میرے اصحاب سے زیادہ وفادار، نیک اصحاب کسی کو نصیب نہیں ہوئے، آپ نے فرمایا یہ لوگ میری رکاب میں شہید ہونے کو ایک شیر خوار کی ماں کے پستان سے رغبت سے زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔"
رکاب حسینی میں کربلا کے شہداء کا جذبہ دیکھ کر دشمن اپنے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ لوگ خود کو موت کے لیے آمادہ کرچکے ہیں، تم لوگ ایسے افراد کے مقابل میں ہو، جو موت کو شرف سمجھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا یہ شیرانِ معرکہ ہیں، شیروں کے شیر ہیں، موت کے عاشق ہیں۔ اگر ہم اصحاب امام حُسین کا غیر جانبدار خواص اور لشکر یزید کے افراد سے تقابلی جائزہ لیں تو بہت سی ایسی خصوصیات ہیں، اگر ہم اُن میں سے کسی ایک خصوصیت کو اپنا لیں تو حقیقی حُسینی بن سکتے ہیں۔ امام حسین کے اصحاب میں سب سے پہلی اور منفرد خصوصیت بصیرت ہے۔ بابصیرت افراد ہمیشہ حق کے درپے ہوتے ہیں اور حق شناس ہوتے ہیں۔ وہ کسی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر راستے سے جدا نہیں ہو جاتے، کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے ہیں، نیز فتنوں میں غیر جانبداری و سکوت اور خود غرضی سے خود کو دُور رکھتے ہیں۔
ایک اور خصوصیت جو کربلا کے شہداء کو سب سے جُدا کرتی ہے، وہ خوف سے دُوری ہے۔ خوف ایسا عمل ہے جو حق سے روگردانی کرنے کا سبب بنتا ہے، کوفہ والوں نے اسی صفت رذیلہ کی خاطر حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ایک اور سبب جس کے باعث بہت سے افراد لشکر یزید کا حصہ بن گئے، وہ ریاست طلبی اور مال پرستی تھا۔ لشکر یزید کے خواص شمر، عمر سعد، ابن زیاد اور لشکر امام حُسین کے حُر، وہب کلبی، نافع بن ہلال میں صرف بصیرت اور حق شناسی کا ہی تو فرق تھا۔ حسینی لشکر میں کسی کو مال کی طلب یا ریاست طلبی کا لالچ اور کسی بڑے لشکر کا خوف نہیں تھا۔ آیئے اپنا احتساب کریں، اگر ہم کربلا میں ہوتے تو کس لشکر کا حصہ ہوتے۔؟ مصلحت پسند خواص میں یا بابصیرت اور حق شناس حُسینی لشکر میں۔؟