امام خمینی

فلسطین کے بارے میں امام خمینی ( رہ) کی کاوشوں پر مختصر طور نگاہ

امریکہ اور اسرائیل کے خلاف تیل کی پابندی پر تاکید: جب عرب اور اسرائیل کی متعدد جنگوں کے تجربے، خاص طور پر رمضان جنگ کی شکست نے عربوں کے مابین سمجھوتے کا زمینہ فراہم کیا تو امام خمینی(رہ) نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف تیل کے پابندی کا استعمال جاری رکھنے پر اصرار کیا۔

۱۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف تیل کی پابندی پر تاکید: جب عرب اور اسرائیل کی متعدد جنگوں کے تجربے، خاص طور پر رمضان جنگ کی شکست نے عربوں کے مابین سمجھوتے کا زمینہ فراہم کیا تو امام خمینی(رہ) نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف تیل کے پابندی کا استعمال جاری رکھنے پر اصرار کیا۔

امام خمینی(رہ) نے اس بات پر اسلامی انقلاب سے پہلےاور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی بہت زور دیا، لیکن بد قسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا پر، جن میں اسلامی ممالک کے بہت سے رہنماؤں کی کمزوری اور انحصار طلبی بھی شامل ہے، اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ان سالوں کے خصوصی حالات اور صنعتی پیداوار میں تیل کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے امام کی اس بات کی  اہمیت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب مغربی دنیا نے ابھی تک تیل کی پابندی کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری دفاعی اقدامات نہیں کیے تھے۔

۲۔ فلسطین کی آزادی کا انحصار اسلامی تشخص کی بحالی پر منحصر ہے:

اصولی موقف اختیار کرنے اور سنجیدگی کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں پر اعتماد کریں ان کا ساتھ دیں۔ لیکن اکثر اسلامی ممالک میں ظلم و استبداد اتنا زیادہ ہے کہ عوام حکومتوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

امام خمینی نے اس صورتحال اور عالم اسلام کے عقیدے اور اسرائیل کی ظالمانہ حکومت کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا:  

جب تک ہم رسول اسلام کی طرف سے لائے گئے اسلام کی طرف واپس نہ آئیں تو ہمارے مسائل اپنی جگہ پر ہی رہیں گے، اور نہ ہی ہم فلسطین، افغانستان اور دیگر ممالک کے مسائل کو حل کر سکیں گے، قوموں کو صدر اسلام کی طرف لوٹنا چاہئے۔ اور اگر حکومتیں واپس نہ لوٹیں تو، قوموں کو اپنا حساب حکومتوں سے الگ کرنا چاہئے اور حکومتوں کے ساتھ وہی کرنا چاہئے جو ایرانی قوم نے اپنی حکومت کے ساتھ کیا ہے تاکہ اس طریقہ سے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

۳۔اسرائیل کی سازشوں کو مختلف طریقے سے ناکارہ بنانا:

اسرائیلی پارلیمنٹ کا نعرہ یہ ہے کہ "اسرائیل کی سرحد نیل سے فرات تک ہے"؛ اور یہ نعرہ اسرائیل کی کمزوری اور اس کے وجود میں آنے کی ابتدامیں لگایا گیا تھا، جب اسلامی دنیا کی آبادی پر غاصبوں کا اقتدار بہت کم تھا اور ظاہر ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوں گے تو وہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

امام خمینی نے مختلف مقامات پر اسرائیل کی توسیع پسندی اور حالیہ سرحدوں کے وجود میں آنے کے خطرے سے متعلق خبردار کیا، اور یہ بھی واضح کیا  کہ اسرائیل کا انکار یا تردید صرف عالم اسلام کی رائے عامہ پر منحصر ہے۔

۴۔ یہود کو صیہونیزم سے الگ کرنا

ہم جانتے ہیں کہ صیہونیزم ایک سیاسی رجحان ہے جو  نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظریات کا حامل ہے، جو یہودیت کی آڑ میں مذہبی کردار ادا کرتا ہے اور یہودی لوگوں کو نجات دہندہ کی حیثیت سے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ دنیا کے یہودیوں کے نسلی اتحاد کا دعوی صہیونیوں نے کیا ہے اور وہ اس خیالی دعوے کی مدد سے مقبوضہ علاقوں میں کئے گئے جرائم کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ شروع میں اس کہانی کا بنیادی کردار برطانیہ نے ادا کیا تھا، اور اب وائٹ ہاؤس کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا نوآبادیاتی نظام کبھی بھی خدا کے مذہب اور مذہبی لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اور صرف اپنے نوآبادیاتی مفادات کے بارے میں سوچتا ہے۔ ان حقائق سے امام خمینی آگاہ تھے اور وہ ہمیشہ یہودیت کو صیہونیزم سے الگ کرکے اس چال کا مقابلہ کرتے رہے۔

ای میل کریں