ظہور کیلئے دعا کرو کہ آپکا اپنا ظہور ہو
تحریر: سید حیدر نقوی
کتنا ہی خوبصورت اور کیا پر معنیٰ جملہ ہے، اس جملے پر ہم جس قدر غور و فکر کرتے جائیں، ہمارے لیے نئے سے نئے روحانیت کے باب کھلتے جائیں گے، یعنی ہم اپنے وجود کا احساس کرنے لگیں گے، ایسا وجود جو نرم و ملائم ہو کر عرفاء کا ہم سفر بن جاتا ہے۔ کاش! ہم اس کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو جائیں۔ کاش! پروردگار، اس جملے کو ہم درک کرسکیں۔کاش! ظہور ہمارے لیے ظاہر ہو۔ یہ لفظ ظہور اپنے اندر کتنی خوبصورتی کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یااللہ ہم ظہور کے حقیقی معنوں کو پہچان سکیں اور اپنے مولاؑ کے حقیقی جانشینوں میں سے ہو جائیں۔ بظاہر یہ سادہ جملہ "ظہور کے لیے دعا کرو کہ آپ کا اپنا ظہور ہو" ہماری سوچوں کو بدلنے والا ہے، یعنی جب انسان اپنے مہربان امامؑ کے لیے دعا کر رہا ہے کہ پروردگار اپنی حجت کو ہمارے درمیان جلد بھیج تاکہ ہم تیری عبادت، تیرے ذکر، تجھ سے عشق کرنا اپنے ان ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اگر دعاء تعجیل ظہور امام علیہ السلام معرفت حقیقی سے ساتھ کی جائے تو اس میں شک نہیں ہم اپنے اندر کے انسان کا ظہور پالیں گے اور فطری آواز پر لبیک کہیں گے، جس کا دار و مدار تخلیق کائنات ہے۔ اللہ کی عبادت اور اس کی محبت میں ایسے غوطہ زن ہوںگے کہ اس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آئے گا۔
پروردگار کی حقیقی معرفت:
اگر ہم جان لیں کہ رب کی حقیقی معرفت حاصل کرنے کے بعد کا لطف و کرم کیسا ہے؟ تو لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہوں، اس رب کریم جس کی قدرت میں سب کچھ ہے، جیسا کہ مولائے کائنات امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل کے شروع میں فرماتے ہیں: اٴَللّٰھُمَّ اِنّيِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ،وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ،وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ، وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ، وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ، "خدایا میرا سوال اس رحمت کے واسطہ سے ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔ اس قوت کے واسطہ سے ہے، جو ہر چیز پر حاوی ہے اور اس کے لئے ہر شے خاضع اور متواضع ہے۔ اس جبروت کے واسطہ سے ہے، جو ہر شے پر غالب ہے اور اس عزت کے واسطہ سے ہے، جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نہیں ہے۔ اس عظمت کے واسطہ سے ہے، جس نے ہر چیز کو پر کر دیا ہے اور اس سلطنت کے واسطہ سے ہے، جو ہر شے سے بلند تر ہے۔ اس ذات کے واسطہ سے ہے، جو ہر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رہنے والی ہے۔۔۔" اگر ہم چاہتے ہیں اپنے رب کی معرفت حاصل کرسکیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حجت خدا کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ امام علیہ السلام کے ظہور کی دعا یقیناً! ہمارے لیے ایسے راستے کھول دے گی، جس سے ہم اپنے مہربان باپ امام آخر زمان علیہ السلام کو درک کرتے ہوتے رحمان و رحیم پروردگار کو پہچان سکیں گے۔
ظہور کی دعا، معرفت نوراللہ ہے:
ظہور کی دعا کو معرفت حقیقی سے کرنے سے یقیناً اندر کا انسان ہم پر ظاہر ہونے لگے گا اور اللہ کے نور کی تجلیاں ہم پر ایسے روشن ہوں گی، جیسا کہ ان کا حق ہے اور وہ نور کی تجلیاں معصومین علیہم السلام ہی ہیں۔ جیسا کہ اس آیت کے ذیل میں بیان ہوا ہے: يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (سورہ توبہ، آیت ۳۲) "یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے یہ بات کفّار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔" اس آیتہ شریفہ میں اور اس کے مشابہ دوسری آیات میں لفظ "نور" نحوی لحاظ سے "اللہ" کی طرف اضافہ ہوا ہے اور یہ مضاف اپنے تمام اوصاف اور حقائق کو مضاف الیہ (یعنی اللہ) سے کسب کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ نور (جس سے مراد مستند اور اہم روایات میں اہل بیت علیھم السلام اور ائمّہ معصومین علیھم السلام ہیں) کبھی بھی خدا سے جدا نہیں ہوگا اور خداوند عالم کے عالی ترین فیض کو حاصل کرنے سے کبھی محروم نہیں ہوگا۔ یہ بس ائمّہ طاہرین علیھم السلام ہیں جن کا خدا سے اتصال سورج کی کرنوں کے اتصال سے بھی زیادہ شدید تر ہے!
زیارت جامعہ کبیرہ میں ائمّہ علیھم السلام کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے:
"لقکم اللہ انوارا" خداوند عالم نے تم (اہل بیت)کو نور پیدا کیا ہے۔"(الفقیہ، ج ٢، ص ٦١٣/بحار الانوار، ج ٩٩، ص ١٢٩، باب ٨) اور دوسری جگہ بیان ہوا ہے: "و ان ارواحکم و نور کم و طینتکم واحدہ طابت و طھرت" آپ (اہل بیت ؑ) کی روح، نور اور طینت ایک ہی ہے، پاک و پاکیزہ ہیں آپ حضرات۔"(الفقیہ، ج ٢، ص ٦١٣ / بحار الانوار، ج ٩٩، ص ١٢٩، باب ٨) نبی کریمﷺ تو وہ ہستی ہیں، جن سے خود پروردگار محبت کرتا ہے، محبوب کی محبت سے سرشار ہو کر اللہ یوں فرماتا ہے: "اللہ اور اس کے فرشتے یقیناً نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔"(سورہ الاحزاب ۵۶) رب کریم نے اپنے ٘محبوب سے محبت کے اظہار کو یوں بھی بیان کیا: "کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔"(سورہ شوریٰ، آیت ۲۳) یعنی جن سے اللہ کے محبوبؐ محبت کرتے ہیں، اللہ نے ان سب کی محبت انسانوں پر فرض قرار دے دی۔ اب اگر انسان اللہ سے محبت کا دعویٰ دار ہے تو اللہ کی معرفت حقیقی کے ساتھ ان سب کی معرفت حاصل کرنی ہے، جن سے اللہ اور اس کا رسولﷺ محبت کرتے ہیں، جو کہ کائنات کے وجود میں ہونے کی دلیل ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت نقل ہوئی ہے: "مَن مَاتَ وَ لَم یَع رِف اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَی تَةً جَاہِلِیَةً"(بحارالانوار، ج۱۵، ص۰۶۱) ”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اپنے امام زمانہ (علیہ السلام) کو نہ پہچانتا ہو تو اس کی موت جاہلیت (کفر) کی موت ہوگی، (گویا اس نے اسلام سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا ہے)۔“
انسانی ارتقاء امامؑ کے ظہور کی دعا میں پوشیدہ ہے:
جیسے جیسے انسان اپنے ظہور کو سمجھنے لگے گا تو یقیناً کائنات اس پر کھلنا شروع ہو جائے گی۔ خود بخود وہ اپنے خدا اور اس کی حجت سے ایسا جڑ جائے گا کہ اس کے لیے یہ ظاہری دنیا کوئی معنی نہیں رکھے گی۔ وہ عشق کی ان منزلوں پر سفر کرنے لگے گا، جس کی طلب ہر عاشق امامؑ کرتا ہے۔ امامؑ کے ظہور کی دعا جب تک کہ انسان کے اپنے اندر کا ظہور نہیں کر دیتی، تب تک یہ دعا صرف زبان سے ادا کی جا رہی ہے اور درحقیقت انسان اپنے مفاد کی خاطر اپنے مولاؑ کے ظہور کی دعا مانگ رہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اس وقت کس منزلت پر کھڑے اپنے امامؑ کے ظہور کی دعا مانگ رہے ہیں۔۔ ہم جب ظہور امام زمانہ(ع) کے لیے دعا کرتے ہیں، درحقیقت اپنے آپ کو ارتقاء دیتے ہیں، فرج امامؑ کے لیے دعا کرنا ایک عظیم فرصت ہے، اپنے آپ کو کمال دینے کے لیے، مشکلات سے خود کو چھٹکارا دینے کے لیے، اپنے فہم و شعور کو بڑھانے کے لیے ہے۔۔۔
یہ اب ہم انسانوں پر محیط ہے کہ اپنے آپ کو کس جگہ رکھنا چاہتے ہیں، کیا اسی طرح مشکلات میں رہنا چاہتے یا ظہور امامؑ کی دعا کے ساتھ نہ صرف آئندہ کی روشن اور خدائی حکومت جہاں ہر طرف ایسا نور، ایسا سکون جس کی آرزو میں انسان کب سے سرگرداں ہے، کو پائے بلکہ انسان تو دعا کے ساتھ حال کو بدل سکتا ہے اور اپنے اندر اس نور کو درخشاں ہوتا محسوس کرسکتا ہے۔۔۔ خداوند متعال سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی معرفت قلبی عطا کرے، جس کے نتیجے میں ہماری روحوں کو پاکیزگی حاصل ہو اور اندر سے ایک ایسے انسان کا ظہور ہو، جو صرف اور صرف اللہ کی رضا اور امام ؑ کی غلامی کا خواہشمند رہے۔