مسجد گوہرشاد کا واقعہ
ایران کی جنتری میں 13/ جولائی کی تاریخ "روز حجاب" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مشہد مقدس میں لوگوں نے رضا شاہ کے دور حکومت میں پردہ پر پابندی ہٹانے کے خلاف احتجاج کیا تھا اسی دن سے یہ تاریخ روز حجاب اور عفت و پاکدامنی کے نام سے موسوم ہوگئی۔
تاریخ معاصر میں اسلام دشمن عناصر کی ایک سازش پردہ نہ کرنے کی پابندی ہے۔ انگریزوں کا کاسہ لیس اور پٹھو رضاخان نے مغرب نواز بالخصوص درباری خواتین کو بے پردہ یا پردہ نہ کرنے کی شکل میں عمومی مقامات اور چوراہوں پر جانے کی اجازت دی اور بے پردگی کو عام کرنے کی کوشش کی اور مغربی نوازی اور یورپ کی خوشامد میں اسلام کے مظہر کو مٹانے کی کوشش کی اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ایران میںاس طرح کا کلچر لانے کی ٹھانی۔
اس خبر کے عام ہوتے ہی مشہد میں تلاطم برپا ہوگیا۔ آخر کار آیت اللہ قمی نے کچھ علماء اور صاحبان فہم اور اہل علم و مردان عمل سے مشورہ کرنے کے بعد تہران کا سفر کیا۔ جب آپ تہران پہونچے تو حکومت کے اہلکاروں اور چمچوں ںے آپ کی رہائشگاہ کا محاصرہ کیا۔ یہ خبر سن کر مشہد کے لوگوں نے غصہ بھڑک اٹھا اور اسلام جذبات سے لبریز ہوکر حکومت کے اس سیاہ کارنامہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو حکومت نے 13/ جولائی 1935ء کو مشہد گوہرشاد میں بہت ہی بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کا قتل عام کرایا۔ آیت اللہ قمی کو اس قتل عام کے کچھ دنوں بعد جلاوطن کردیا گیا اور حکومتی مامورین آپ کے چاہنے والوں اور حامیوں کو گرفتار کرنے کی فکر میں لگ گئے۔
آیت اللہ قمی کے چاہنے والوں میں سے ایک شیخ محمد تقی بہلول تھے کہ ان کو جب حکومتی کارندوں نے گرفتار کیا تو صحن ہی میں مشہد کے لوگوں نے حملہ کرکے انھیں بچالیا۔ مرحوم بہلول گوہرشاد مسجد میں گئے اور وہاں جا کر آپ نے اپنا مقابلہ جاری رکھا جبکہ کوتوالی بار بار لوگوں کو متفرق ہونے کا حکم دے رہی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ ںهیں ہوا۔ پھر قتل عام کا حکم دے دیا جس میں دو ہزار بے گناہ انسان جاں بحق ہوئے تھے۔ رضا شاہ نے اسلامی ثقافت کو مغربی ثقافت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہر حربہ کا استعمال کیا لیکن ظالم اور مجرم ذلیل و رسوا ہو کر ہی رہتا ہے اور انسانیت مخالف فکر کامیاب نہیں ہوتی۔
کشف حجاب (بے پردگی کے قانون) کے دور میں بہت ساری خواتین بے پردہ ہوکر گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی تھیں اور گھر میں رہیں اور اگر کچھ باہر نکلتی بھی تھیں تو رات کی تاریکی میں۔ خواتین کا حجاب پر پابندی کرنا انھیں روحانی درجات تک پہونچنے مدد کرتا ہی اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچاتا ہے۔
خلاصہ اسلامی آثار پر حملہ کرنے والے حکومتی اہلکار اپنی منحوس اور اسلام مخالف سازش میں ناکام ہوئے، ان کے منہ پر طمانچہ لگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رسوا ہوگئے اور ایرانی عوام نے بے پردگی کی اجازت نہیں دی اور اپنی جان کی بازی لگا کر اپنی ناموس اور عزت کی حفاظت کی۔
خداوند عالم ہم سب کو اسلامی اصول و ضوابط پر چلنے کی توفیق دے اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مقابلہ کرنے کی قوت اور جذبہ دے۔ آمین۔