جب تک تاریخ زندہ ہے ،مدرس زندہ ہے
سید حسن مدرس کا پورا نام سید حسن طباطبائی زوارہ ہے اور آپ مدرس کے نام سے مشہور تھے۔ آپ ایران کے اصفہان صوبہ کے زوارہ نامی مقام پر 1870 ء میں پیدا ہوئے اور ایک دسمبر 1937ء کو 67/ سال کی عمر میں ایران کے کاشمر نامی مقام پر خدا کو پیارے ہوگئے۔
کچھ دنوں اسفہ نامی دیہات میں اپنے دادا میر عبدالباقی کی خدمت میں درس پڑھنے کی غرض سے گئے۔ پھر عبدالباقی کے انتقال کے بعد 16/ سال کی عمر میں اپنی تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لئے اصفہان گئے۔ انہوں نے اسلامی علوم میں اپنی تعلیم اصفہان کے عالم علامہ شیخ مرتضی ریزی سے حاصل کی اور نجف میں میرزای شیرازی اور آخوند خراسانی اور سید محمد کاظم یزدی جیسے مراجع سے درس پڑھا۔ انہوں نے دینی تعلیم اجتہاد تک جاری رکھی اور اس کے بعد اصفہان واپس آکر فقہ و اصول کی تدریس کرنے لگے۔
ان کی سیاسی سرگرمی اصفہان کی مقدس ملی انجمن میں رکنیت اختیار کرنے سے شروع ہوجاتی ہے۔ آخوند خراسانی اور عبداللہ مازندرانی نے پارلیمنٹ کے لئے نوراللہ نجفی اصفہانی کو صف اول کے ایک مجتہد کے عنوان سے متعارف کرایا اور انہوں نے مدرس کو اس کام کے لئے متعارف کرایا اور پارلیمنٹ کی طرف سے منظوری بھی مل گئی۔ آپ تہران کے لوگوں کی جانب سے نمائندہ ہوگئے لیکن یہ پارلیمنٹ بیرونی دباؤ اور پہلی عالمی جنگ کے آغاز کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ باقی نہ رہ سکی۔
1914ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی۔ ایرانی حکومت نے رسمی طور پر غیر جانبداری کا اعلان کردیا لیکن روس، انگلینڈ اور عثمانی افواج اس بے طرفی کی جانب توجہ کئے بغیر ملک میں داخل ہوگئیں اور ایک دوسرے سے بھڑگئیں۔ پارلیمنٹ کے نمائندوں میں سے 27/ افراد اور کچھ سیاسی افراد کا گروہ اور عوام روس اور انگلینڈ کے حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے قم کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں آکر اس شہر میں "دفاع ملی کمیٹی" تشکیل دی اور امور کا ادارہ کرنے کے لئے 4/ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی کہ جناب مدرس ان میں سے ایک تھے۔ جب روس نے قم پر قبضہ کرلیا تو اس کمیٹی نے اپنی سرگرمی کرمانشاہ میں جاری رکھی۔
آیت الله مدرس نے رضا شاه کی ہر طرح مخالفت کی۔ آخر کار سن 1926ء ان پر جان لیوا حملہ ہوا لیکن بچ گئے۔ مدرس سن 1937 ء کی شب کو رضا شاہ کے حکم سے قتل کردیئے گئے۔امام خمینی (رح) ان کے بارے میں فرمایا: جب تک تاریخ زندہ ہے، مدرس زندہ ہے۔
خداوند عالم ان کے درجات کو بلند کرے اور ان پر درود و سلام کی بارش کرے۔ آمین۔