امام خمینی (رہ) نجات دہندہ عصر حاضر
تحریر: مظفر حسین کرمانی
امام خمینی (رہ) وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے اس زمانے میں آکر موجودہ زمانے و تاریخ کا رخ بدلا، جب ہر طرف سے انسانوں و خصوصاً مسلمانوں پر مختلف اعتبار سے یلغار تھی، شیاطین عالم خوش تھے کہ انہوں نے بشریت کے لئے جو اپنا شیطانی منصوبہ تیار کیا ہے، اسے وہ بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے۔ اس وقت پروردگار عالم نے بشریت کو امام خمینی (رہ) کی شکل میں ایک نجات دہندہ عطا کیا، جنہوں نے آکر ان شیاطین و ان کے بنائے نظاموں کو للکارا اور اس کی بابت دنیا بھر کے انسانوں و مسلمانوں کو آگاہی بخشی۔ امام خمینی (رہ) نے جس وقت اپنی تحریک چلائی، اس وقت مختلف نظام و نظریات دنیا میں پیش کئے جا چکے تھے۔ بعض نظریات کے عناوین بہت ہی خوبصورت تھے، مگر جب انسان ان نظریات کی تہہ تک پہنچ جائے اور ان کے پیچھے شیاطین عالم کے اہداف جان لے تو وہ بالکل کھوکھلے ہی نکلتے و نظر آتے، جن کا مشاہدہ ہم آج بھی کر رہے ہیں۔
جیسا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جن کے دعوے بڑے بڑے ہیں، لیکن آج تک انہوں نے انسانوں کے حقوق کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ استعمار و استکبار کی خدمت میں ہیں۔ فلسطین کو اسرائیل جیسی غاصب ریاست نے تار و مار کیا۔ کشمیر پر بھارتی فوج نے ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے، مگر ان تنظیموں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی اور آج بھی فلسطین، کشمیر، یمن، سوریہ، عراق برما اور بعض افریقائی ممالک میں مظالم کی انتہاء کی جا رہی ہے و مغربی ممالک میں رنگ کے مختلف ہونے کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا یے، مگر یہ تنظیمیں نیند کا ڈھونگ رچا کر مست بیٹھی ہیں۔ امام خمینی نے آکر ملتوں کو استقامت و ظالم طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا، جس کے اثرات ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ مایوس و ناامید ہونے والی ملتیں آج ان طاقتوں کے سامنے ڈٹ گئیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس وسائل کی کمی یے، لیکن امام کے افکار نے ان کے اذہان و قلوب پر ایسی تاثیر ڈالی ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وہ مستقبل کی بابت پرامید نظر آتے ہیں۔
حقوق نسوان کا شعار جس کی بنیاد پر دنیا کی تمام خواتین و خصوصاً مسلمان خواتین کو اسلام کا مخالف بنا کر انہیں فساد و بازار کی زینت بننے کا ایک اوزار بنا دینا، خواتین کو اسلام کا باغی بنانا، وہ اسلام کہ جس نے خواتین کو عزت بخشی، وگرنہ ہم مغرب کی تاریخ پڑھیں تو وہاں خواتین کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک رکھا گیا، خواتین کو اصلاً انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح کا ایک تفریطی تفکر مغرب میں رائج تھا، لیکن 300 سال قبل جب مغربی معاشروں نے ایک نیا جنم لیا تو وہاں ہر چیز کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خواتین کی بابت بھی سوچ میں تبدیلی آئی اور اس تفریطی تفکر کو افراطی تفکر میں بدل دیا گیا یعنی وہ بیجا قیود جو مغربی معاشرے نے اپنی جہالت کی بنیاد پر خواتین پر لاگو کی تھیں، انہیں ہٹایا گیا، لیکن ساتھ ساتھ وہ قوانین جو خواتین کی طبیعت و فطرت کا تقاضا اور معاشرے کی سلامتی کا باعث ہیں، انہیں بھی توڑ دیا گیا، جس کی تباہیوں کے اثرات ہم آج مسلمان معاشروں میں بھی دیکھ رہے ہیں، جہاں نام نہاد مسلمان حکمران و دانشور موجود ہیں، جو مغرب کے ان فاسد افکار سے متاثر ہیں۔
بشریت کو نظام جمہوریت (Democracy) کا تحفہ جو کہ علامہ اقبال (رہ) کے بقول آمریت پر لبادہ اوڑھ کر اسے انسانوں کے لئے پیش کیا گیا، جہاں فقط وہ حاکم بنتا ہے، جس کے پاس قدرت و افرادی قوت ہو۔ ساتھ ساتھ یہ شیاطین جو نظام جمہوریت کے دعویدار ہیں، مختلف جگہوں پر آمریت کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح کمیونزم (communism) کا تفکر جس کی اساس ہی دین و خدا دشمنی پر تھی، جنہوں نے آکر دین کو معاشرے کیلئے افیون قرار دیا اور یہ نعرہ لگایا کہ اب خدا کا زمانہ گیا۔ جب یہ نعرے لگائے جا رہے تھے، اس وقت امام خمینی (رہ) نے دین اسلام کی بنیاد پر انقلاب برپا کیا اور نظام سیاسی اسلام اپنے ملک پر نافذ کیا۔ اس انقلاب کو نور کہا، جس نے فقط ایران تک محدود نہیں رہنا تھا بلکہ تمام عالم تک اپنی شعائیں و روشنی پھیلانی تھی "انقلاب ما انفجار نور بود" آج ہم اس انقلاب کے ثمرات دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے، جہاں مسلمان دیگر نظاموں سے لا تعلق ہو کر اسلامی بنیادوں پر نظام قائم کرنے کے متمنی ہیں۔
ماڈرنیزم (Modernism) کے نام پر تہذیب و ثقافت جدید جو کہ فاسد معیارات پر تھی، پیش کی اور اسے تمام انسانوں پر لاگو و نافذ کرنے کیلئے مختلف طریقے و وسائل سے استفادہ کیا اور کر رہے ہیں، امام خمینی (رہ) نے اس فاسد ثقافت کے متبادل اسلامی ثقافت پیش کی اور اسے احیاء کرنے پر زور دیا۔ آزادی بیان کا کھوکھلا نعرہ، جس کی آڑ میں لوگوں کو اپنی اساس و اصل سے دوری و بغاوت پر آمادہ و تیار کرنا تھا۔ سیکولرزم (Secularism) جیسا تفکر جس کے مطابق دین کو اجتماعیت و معاشرے سے نکال باہر کرکے اسے فقط انسان کی انفرادی زندگی کا ایک مشغلہ بنانا تھا کہ جسے مسجد سے باہر آکر انسان کے مختلف امور میں مداخلت کی اجازت نہ تھی۔ امام خمینی (رہ) نے دنیا پر یہ واضح کیا کہ دین اسلام ہی بشریت کے لئے ہر اعتبار سے ایک جامع نظام رکھتا ہے۔ ان شیاطین نے سیاست کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا تھا کہ لوگ سیاستدانوں کو دھوکہ باز و مکر کرنے والا تصور کرتے تھے، مگر امام نے آکر محمدی و علوی سیاست کا ایک مظہر پیش کیا، جس میں سیاست کا محور لوگوں کی اصلاح و فلاح ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملت چاہتی ہے کہ وہ سرخرو ہو تو اسے محمدی و علوی سیاست کی طرف لوٹنا پڑے گا، جو کہ ہمیں ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں میں نظر نہیں آتی، اس کے لئے فقط چہرے بدلنا کافی نہیں بلکہ پورا نظام بدلنے و انقلاب کی ضرورت ہے، وہ انقلاب اور اسلام جس کی اساس اسلام ناب و خالص ہو۔
ان شیاطین کا ایک حربہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کے متبادل اسلام پیش کیا، جسے امام خمینی (رہ) نے اسلام آمریکائی کے نام سے تعبیر فرمایا اور مسلمانوں کو ہوشیار کیا کہ "اسلام گمشدہ است تلاش کنید" اسلام گم ہوچکا ہے، اسے تلاش کرو۔ اسلام کا چہرہ بگاڑنے کیلئے ان شیاطین نے مختلف لشکر بنائے، نام نہاد مسلمان حکمران، دانشور، درباری علماء خریدے، جنہوں نے اس اسلام کو ایک متعصب دین و مسلمانوں کے مابین منافرت پھیلانے کے ذریعے کے طور پر متعارف کروایا، لیکن امام خمینی (رہ) نے دین اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جسے دیکھ کر پوری دنیا کے باضمیر انسان اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ امام خمینی (رہ) کی تحریک درحقیقت اس زمانے میں مسلمانوں کے عروج کی ابتداء تھی، جو آج پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، جس کے عاقلانہ و منصفانہ افکار جن کی بنیاد تعلیمات قرآن و آئمہ معصومین علیہم السلام پر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اس مرد مجاہد و عظیم رہنما پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔(آمین)