جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکہ کی پہلی سیاسی شکست

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکہ کی پہلی سیاسی شکست

عدنان الزرفی نے نامزد وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی جو عراق کے سیاسی حلقوں میں عرف عام کے خلاف تصور کی جا رہی تھی

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکہ کی پہلی سیاسی شکست

تحریر: ہادی محمدی

 

امریکہ نے عراق میں مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول کیلئے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس کو دہشت گردانہ کاروائی کے ذریعے شہید کر دیا تھا۔ لیکن امریکی حکام کے تصور کے برعکس نہ صرف انہیں اس ٹارگٹ کلنگ کے بعد مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوئے بلکہ عراق میں انہیں درپیش سیاسی اور سکیورٹی مشکلات اور چیلنجز میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار ان دو عظیم اسلامی سپہ سالاروں کی بزدلانہ ٹارگٹ کلنگ کے فوراً بعد عراق کی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے امریکہ کے فی الفور فوجی انخلا کا بل منظور کر دیا۔ اس کے بعد امریکی حکام نے نت نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے عراقی حکام پر سیاسی دباو بڑھانا شروع کر دیا تاکہ اس بل کو ختم یا بے اثر کر دیا جائے لیکن اسے اب تک بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کی آخری کوشش عراق میں عدنان الزرفی کے ذریعے ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دینا تھی جو اس کے اشاروں پر ناچتی رہے۔

اب تک امریکہ کے مختلف اسٹریٹجک، تحقیقاتی اور قانون ساز ادارے اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد عراق اور خطہ امریکیوں کیلئے مزید غیر محفوظ، خطرناک اور نقصان دہ ہو گیا ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی حکام نے خفیہ طور پر بعض کرد، سنی اور شیعہ سیاسی قوتوں سے لابی گری کرنے کے بعد عدنان الزرفی کو نامزد وزیراعظم کے طور پر سامنے لے کر آئے۔ اس مقصد کیلئے امریکیوں نے شیعہ جماعتوں میں بھی پھوٹ ڈالی اور ان کے درمیان ایک مشترکہ نام پر اتفاق رائے نہ ہونے دیا۔ اس سے پہلے بھی ایسی رپورٹس موصول ہوئی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ فلیٹ مین نے یورپ میں بین الاقوامی سکیورٹی اجلاس میں شرکت کے دوران عراقی حکام سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ ہم مصطفی کاظمی کو نامزد وزیراعظم کے طور پر پیش کئے جانے کے مخالف ہیں اور اس عہدے کیلئے ہمارے مدنظر عدنان الزرفی کا نام ہے۔ یاد رہے عدنان الزرفی امریکی شہریت کے بھی حامل ہیں۔ لہذا امریکی حکام اور عراق میں ان کی لابی کی کوششوں سے عدنان الزرفی کو نامزد وزیراعظم بنا دیا گیا۔

عدنان الزرفی نے نامزد وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی جو عراق کے سیاسی حلقوں میں عرف عام کے خلاف تصور کی جا رہی تھی۔ عدنان الزرفی نے مغربی ممالک کی حمایت اور اراکین پارلیمنٹ کو خرید کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ان اقدامات نے عراق کے شیعہ اکثریتی معاشرے خاص طور پر اہم سیاسی شخصیات اور دینی رہنماوں میں اس باور کو پروان چڑھایا کہ امریکہ انہیں اپنے مہرے کے طور پر استعمال کر کے آئندہ عراقی حکومت کی مین پالیسیز پر اثرانداز ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لہذا شیعہ سیاسی گروہوں اور رہنماوں نے ان کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ یوں تقریبا تمام شیعہ سیاسی جماعتوں نے موجودہ شدید بحرانی صورتحال میں ملک کو امریکی غلامی سے بچانے کیلئے عدنان الزرفی کی جگہ مصطفی الکاظمی کو لانے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔ بعض سیاسی ماہرین جن میں امریکی ماہرین بھی شامل ہیں کا خیال ہے کہ عدنان الزرفی کی برطرفی اور ان کی جگہ مصطفی الکاظمی کو نیا عراقی نامزد وزیراعظم مقرر کئے جانا شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے بعد عراق میں امریکہ کی پہلی بڑی سیاسی ناکامی ہے۔

اگرچہ اس وقت بھی مصطفی الکاظمی کی نامزدگی کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کچھ تحفظات باقی ہیں لیکن ایرانی حکام نے عراق کی شیعہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ عراق کے سرگرم شیعہ رہنماوں نے ایران کو شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت میں ملوث عناصر کے بارے میں مکمل تحقیقات انجام دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ دس روز میں عراق کے سیاسی میدان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں کی مسلسل ناکامیوں کا ایک نیا باب ہے۔ حال ہی میں عراق کے نامزد وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ نے اپنی فوجی موجودگی کے دوران عراق کا انفرااسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری موجودہ مشکلات کی اصل وجوہات 2003ء کے فورا بعد والے واقعات کی جانب پلٹتی ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ عراق پر امریکہ کا فوجی قبضہ ہمارے ملک کے سیاسی اداروں کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ مصطفی کاظمی نے کہا کہ میں مشترکہ مفادات کی بنیاد پر عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ بھرپور باہمی تعاون پر زور دوں گا۔

ای میل کریں