کرونا سے خطرناک بیماری کو پہنچانیں اور اس سے بچیں
کرونا ایک ایسی بیماری ہے جس سے پوری دنیا ڈری ہوئی ہر کوئی کرونا کے نام سے خوف زدہ ہے آج اپنے ہی رستے دار کرونا کے مریض کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں حالانکہ کرونا اسی وقت کسی دوسرے یا سماج کے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہے جب مریض گھر سے نکل کر کسی دوسرے سے گلے ملے یا ہاتھ ملاے گا لیکن اگر مریض اپنے ہی گھر میں رہے تو یہ بیماری کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا سکتی حالانکہ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے یقین سے کہا کہ کرونا کوئی مہلک بیماری نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم خوفزدہ ہیں جب کہ ہمارے سماج اور گھروں میں کرونا سے بھی خطرناک اور مہلک بیماریان موجود ہیں جو گھر بیٹھے بیٹھے پورے سماج اور معاشرے کو برباد کر رہی ہیں جن میں سے ایک حسد ہے حسد ایک ایسا گناہ ہے جو بہت سارے دوسرے گناہوں کا سبب بنتا ہے حسد کسی ایک شخص کو نہیں بلکہ پورے سماج اور معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے حسد کی تعریف میں راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ الْحَاسِدُ یَرَی أَنَّ زَوَالَ النِّعْمَةِ عَمَّنْ یَحْسُدُهُ نِعْمَةً عَلَیْه؛ حاسد(حسد کرنے والے) دوسروں کی نعمتوں کا جو کہ ان کا حق ہے ختم ہونے کی تمنا کرتا ہے بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتاہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حاسد دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی تمنا کرتا ہے حالانکہ دوسروں کی نعمتوں کے ختم ہونے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان دوسروں کی خوشی اور ترقی برداشت نہیں کرسکتا حاسد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسروں کی خوشیان اسے ملیں یا نہ ملیں بلکہ وہ ان کی خوشیاں اور معاشرے میں ان کی ترقی اور عزت کو داغدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے امام (رہ) فرماتے ہیں کہ اگر حسد تخریب کے ساتھ ہو تو وہ گناہ کبیرہ میں سے ہے مثال کے طور پر ایک انسان کسی کو بچے کو اچھی یونیورسٹی میں پڑھتا دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتا تو وہ معاشرے میں افواہ پھلاتا ہیکہ یہ بچہ اس یونیورسٹی میں پہنچنے کے قابل نہیں تھا لیکن یہ سفارش کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ روایات میں بھی حسد اور حاسد کی مذمت کی گئی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہین کہ حسد تمام برائیوں کی جڑ ہے اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اَخْوَفُ مَا اَخَافُ عَلَی اُمَّتِی اَنْ یَکْثُرَ لَهُمُ الْمَالُ فَیَتَحَاسَدُونَ وَ یَقْتَتِلُونَ؛ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میری امت کے پاس دولت ہو جاے گی اور وہ حسد کی وجہ سے ایک دوسرے کا قتل کریں گے ان روایات سے معلوم ہوتا ہیکہ اگر حاسدیں کا علاج نہ کیا گیا تو وہ نہ صرف معاشرے کے لئے بلکہ دین کے لئے بھی بہت برا خطرہ ہیں ایسے افراد حسد کی وجہ سے دینی عقائد کے منکر ہو جاتے ہیں۔
حسد ایک ایسا گناہ ہے جو بہت سارے دوسرے گناہوں کا سبب بنتا ہے حسد کی وجہ سے حاسد جھوٹ بولتا ہے، تہمت لگاتا ہے، غیبت کرتا ہے، منافقت کرتا ہے حسد کی تعریف میں راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ الْحَاسِدُ یَرَی أَنَّ زَوَالَ النِّعْمَةِ عَمَّنْ یَحْسُدُهُ نِعْمَةً عَلَیْه؛ حاسد(حسد کرنے والے) دوسروں کی نعمتوں کا جو کہ ان کا حق ہے ختم ہونے کی تمنا کرتا ہے بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتاہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حاسد دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی تمنا کرتا ہے حالانکہ دوسروں کی نعمتوں کے ختم ہونے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
واضح رہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بھی اس طرح کےافراد موجود ہیں جوسماج مین دوسروں کی عزت اور شہرت سے پریشان ہیں انھیں کسی دوسرے کی خوشیاں برداشت نہیں ہوتی اسی لئے وہ ایک مومن کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے اس کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں اس کی غیبت کرتے ہیں اس کے خلاف تہمتوں کے انبار لگا دیتے ہیں اور سماج میں نفاق کا بیچ بو دیتے ہیں۔
اپنے دکھوں سے آج پریشان کوئی نہیں
اوروں کا سکھ دیکھ کر اب تو لوگ پریشاں ہوتے ہیں