ڈاکٹر نقوی، شہیدِ کربلا کا سپاہی!
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شہادت کو پچیس سال بیت گئے، پاکستان کی فضائیں ہر سال مارچ میں سوگوار ہو جاتی ہیں، نوجوانوں، بزرگوں، بچوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے مزار پہ حاضری دیتی ہے۔ قبر اطہرِ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید پہ کندہ ہے، شہید کربلا کا سپاہی۔ جسکا مفہوم واضح ہے، کہ شہید ڈاکٹر نقوی نے اپنی زندگی باکل ایسے گذاری جیسے قیام امام حسین علیہ السلام کے دوران وہ لوگ تھے، جنہوں نے امامِ عالی مقام کا ساتھ دیا۔ لاریب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے کامل یقین کیساتھ مشن امام حسین علیہ السلام کی خاطر زندگی بھر جد و جہد کی اور اسی راستے میں شہادت سے سرفراز ہوئے اور سرخ موت کو گلے لگایا۔ واقعہ کربلا کے چودہ سو سال بعد فرزند امام حسینؑ، آیت اللہ روح اللہ خمینی اس دور میں اس کارواں اور قافلہ کے رہنماء تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو امام خمینیؒ کی قیادت پر کامل یقین تھا اور اصحاب امام حسین علیہ السلام جس طرح آپؑ سے عقیدت و عشق کی منزل پہ فائز تھے، اسی طرح ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی کہا کرتے کہ مجھے یقین ہے کہ جدیث میں ہے کہ میری امت کت علماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہیں، امام خمینی ان علماء میں سے ہیں۔ شہید کا امام خمینی سے عشق اور محبت کامل معرفت کی بنیاد پہ تھا، اسی لیے شہید نے اپنی زندگی میں امام خمینیؒ کی اطاعت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھا۔ نہ صرف انقلاب سے قبل بلکہ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے ہی شہید امام خمینی کی ذات، افکار و نظریات اور قیادت پہ یقین رکھتے تھے۔ بالکل ایسے ہی کہ امام خمینی اس دور میں ظلم و لادینی کیخلاف قافلہِ امام حسینؑ کی رہبری فرما رہے ہیں۔ یہ عمل اور سوچ میں اتنی واضحیت اور قیادت پر یقین رکھتے ہوئے، کامل اطاعت کہنے سننے کو آسان ہے، حقیقت میں کمال انسانی کا مظہر ہے۔
جیسے کہ امام حسین علیہ السلام نے جب مدینہ سے رختِ سفر باندھا تو آپؑ نے مدینہ، مدینہ سے مکہ اور مکہ میں کئی ماہ تک قیام کے دوران ہر بااثر، نمازی، زکوٰاۃ ادا کرنے والے، منکرات سے اجتناب کرنے والے، دوسروں کا خیال رکھنے والے، علم و فضل رکھنے والے، دوسروں کیلئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھنے والے نمایاں، برجستہ اور ان سے وابستہ مسلمانوں کو یزید ملعون کیخلاف دعوت حق دی، حاجیوں سے خطاب کیے، بالمشافہ ملاقاتیں کیں، خطوط لکھے، احرام توڑے اور عصمت و طہارت رکھنے والے خانوادے کو سفر میں ساتھ رکھا، لیکن مذکورہ تمام مسلمان جو بظاہر کسی فساد، برائی اور آلودگی سے دور تھے، انہیں اپنا مدعاء بیان فرما، جو انہیں سمجھ نہ آیا، اگر سمجھ آیا تو کسی نے اپنی دلیل دی، کسی نے معذرت کی، کسی نے زیارت کی اور رخصت چاہی، کسی نے امام حسین علیہ السلام کو ہی اپنی جان بچانے اور دین کی تبلیغ و تعلیم میں وقت صرف کرنیکا مشورہ دیا، لیکن اصحابِ امام حسین علیہ السلام نے عشق حسینؑ کو سرمایہ حیات سمجھا اور قربان ہوگئے۔
اسی طرح انقلاب اسلامی سے قبل امام خمینی نے جب ظلم کیخلاف قیام کا نعرہ بلند فرمایا تو جن افراد نے امام خمینیؒ کے پیغام کو سمجھا اور اس پہ لبیک کہا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ان میں ایک تھے۔ اور یہ کہنے میں باک نہیں کہ علامہ اقبال کے خوابوں کی سرزمین، پاکستان پر ولایت کا پہلا پھول ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی ذات تھی، جس سے یہ بے آب و گیاہ صحرا ایک گلستان میں تبدیل ہوا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے دور میں دین پر عمل کرنیوالوں اور دین کی تبلیغ کرنیوالوں کی کمی نہیں تھی، نہ ہی قوم کو مستحکم کرنیوالے اور ملت کو مضبوط بنانے کیلئے فلاح و بہبود، تعلیم، اقتصاد اور اتحاد کیلئے کوششیں کرنیوالے ناپید تھے۔ جیسے آج بھی ہیں، پاکستانی سرزمین ایسے اچھے افراد سے بھری پڑی ہے، لیکن کسی کا ڈاکٹر شہید سے کوئی تقابل نہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے عصر امام خمینیؒ کو عصر معصومینؑ کی طرح ہر ذی شعور کیلئے اتمامِ حجت قرار دیا، کہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے کسی معصومؑ کا زمانہ نہیں دیکھا اس لیے پیچھے رہ گئے۔
بالکل ایسے ہی بالخصوص جنہوں نے عصر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو پایا، ان کے لیے اتمام حجت ہوچکا، وہ خوش نصیب ہیں، جنہوں نے اسے سمجھا، اپنایا، جد و جہد میں شریک ہوئے، اس پہ قائم ہیں۔ انکی مثال امامِ وقت کے کارکنوں اور ساتھیوں جیسی ہے۔ جیسا کہ شہید تبنصیر حیدر بخاری سے متعلق روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے، جب سب لوگ امامِ وقت کے حضورجمع ہوں تو امام علیہ السلام میرا نام لیکر پکاریں کہ تنصیر ادھر آوء۔ یہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ایک ساتھی کے جذبے، محبت اور یقین کی مثال ہے۔ ایسےافراد جنہوں نے ڈاکٹر شہید کا زمانہ پایا، کسی بھی شعبہ زندگی میں وقت نکال کر انکا ساتھ دیا، انکی مثال بھی ویسی ہے، جو اپنے امامؑ کا زمانہ دیکھیں، امامؑ انہیں حکم دیں اور وہ اسکی تعمیل کریں، انشا اللہ پیرووان ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، امام خامنہ ای کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شہید کربلا امام حسین علیہ السلام پہ جان نچھاور کرنیوالوں میں شمار ہونگے۔ عصر خامنہ ای میں رہنے والوں کیلئے شہید قاسم سلیمانی نے اتمام حجت کر دیا ہے، جیسا کہ وصیت میں امام خامنہ ای کو تنہاء نہ چھوڑنے کی تلقین کی۔ شہداء نے واضح کیا ہے کہ اس عصر میں شہید کربلاؑ کا راستہ کیا ہے، انکا سپاہی کون ہے!