شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی (رح) ؛ مکتب خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ
تحریر: سید حسن بخاری
شخصیات کو ان کی فکر اور عمل کے مقیاس پر پرکھا جاتا ہے۔ ہر شخصیت کی چند خصوصیات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی فکر، عمل اور ذاتی خصوصیات کیوجہ سے عظیم بھی تھے اور ممتاز بھی۔ شہید کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے یا ان کے رفقاء سے شہید کی زندگی کی روئیداد سنی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معصوم کی اس حدیث کے حقیقی مصداق تھے کہ "اے ہمارے ماننے والو ہمارے لیے باعثِ زینت بنو!" وہ حقیقی معنوں میں مکتب اور اہلِ مکتب کی زینت تھے۔ وہ کم گو تھے، لیکن انتہائی بااثر گفتگو کرتے۔ تسلسل ان کی جدوجہد کا خاصا تھا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتیں خدا کے لیے صرف کیں۔ وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر عیش و عشرت کی زندگی کا سامان کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ساری زندگی معمولی مکان، معمولی گاڑی اور معمولی ضروریات زندگی کے ساتھ گزار دی۔ اپنی صلاحیتیں قوم کے لیے وقف اور مکتب کی سربلندی کے لیے صرف کیں۔
ان کی گفتگو کے اقتباسات سنیں یا پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شہید ڈاکٹر فکری استقلال کے مالک تھے۔ وہ کوئی مستقل فکری مکتب بنا کر اس کے تحت زندگی گزارنا چاہتے تو یہ ان جیسی شخصیت کے لیے مشکل کام نہیں تھا، لیکن انہوں نے مکتب امام خمینی (رہ) کو اپنا فکری ماخذ قرار دینے کو ترجیح دی۔ وہ مکتب امام خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ اور اسلام و اسلامی سماج کے علمبردار تھے۔ شہید نے نوجوانی اور جوانی کے عالم میں جو تقویٰ اور روحانیت کسب کی، اسے تمام عمر محفوظ رکھا۔ روزمرہ کی زندگی میں خصوصاً تنظیمی زندگی میں دسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ اپنے زمانہ طالب علمی میں یا تنظیمی دورانیے میں انتہائی متقی، مخلص، دین کی سربلندی اور قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے، لیکن گردش ایام ان کے جذبات، ان کے اخلاص اور ان کے تقویٰ کو ماند کر دیتے ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا دین و ملت کے لیے جو درد پہلے دن تھا، وہی درد تا دمِ شہادت برقرار رہا۔ بے نواؤں کے لیے جو بے قراری پہلے دن تھی، وہی تادمِ شہادت رہی۔ دین کی سربلندی کا جو جذبہ زمانہ طالب علمی میں تھا، وہی جذبہ تادمِ شہادت برقرار رہا۔
میں نے اپنی شعوری حیات میں شہید ڈاکٹر نقوی کو نہیں دیکھا اور ان کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ قلمی آثار بھی مرتب نہیں ہوئے، لیکن اپنی شعوری حیات کے گذشتہ کچھ سالوں کے دوران ان کے بارے جو کچھ سنا ہے، اس میں کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کسی موقع پر گفتار یا کردار کے ذریعے کوئی شرعی حد کراس کی ہو۔ قومیات میں فعال ایک بڑے طبقے کو درپیش سب سے بڑا چیلنج انہی شرعی حدود کا پاس ہے۔ کہیں زبان لڑکھڑا جاتی ہے تو کہیں کردار کے سفید کُرتے پر سیاہ چھینٹے پڑھ جاتے ہیں۔ عمر بیت جاتی ہے لیکن قومیات کے دوران دامن پر لگے داغ نہیں جاتے۔ شہید کے دامن پر ایسے داغ نہیں دِکھتے، کیونکہ وہ ذاتی اور قومی زندگی میں شرعی حدود کا سختی سے پاس رکھتے تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک اچھے منیجر بھی تھے۔ قومیات کا ایک اور چیلنج دستیاب وقت کی مینجمنٹ ہے۔ لوگ وقت مینج نہیں کر پاتے، پروفیشنل لائف مینج کریں تو قومیات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، قومیات کو وقت دیں تو پروفیشنل لائف کا ستیاناس کر بیٹھتے ہیں۔ شہید نے بیک وقت ایک عمدہ پروفیشنل زندگی کے ساتھ ساتھ ایک سرگرم اجتماعی زندگی بھی گزاری۔
آفاقی سوچ کر مقامی سطح کی حکمت عملی ان کے کام کی خاصیت تھی۔ وہ عالمی تحریکوں سے جڑے ہوئے تھے، لیکن مقامی سماجی، سیاسی اور ثقافتی تقاضوں سے بھی غافل ہرگز نہیں تھے۔ سماج اور سماج کے کارکنوں سے محبت، شفقت، رہنمائی اور ہم دلی و ہم بستگی نے انہیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا تھا۔ مارچ کا پہلا ہفتہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی (رہ) کی برسی کے ایام ہیں۔ ان ایام میں خود کو تذکر اور اجتماعی برکت کی خاطر یہ چند سطریں لکھ دی ہیں۔ ان کے مقام، منزلت، فکر اور عملی کارناموں کو قوم تک پہنچانا ہر اس دوست کا فرض ہے، جس نے شہید کے ساتھ شعوری حیات گزاری ہے اور شہید کا طرز زندگی قریب سے دیکھا ہے۔