انقلاب اسلامی ایران، فتح کی علامت
تحریر: ارشاد حسین ناصر
11 فروری انقلاب اسلامی ایران کی چالیسویں بہار کا دن ہے، انقلاب جسے انفجار نور یعنی نور کا دھماکہ بھی کہا جاتا ہے، جو بجا ہے، یہ نور کا دھماکہ ہی تو تھا جس نے دنیا کو اپنی نورانیت سے منور کیا اور مظلوم و ستم رسیدہ عوام کو امید کی کرنیں دکھائی دیں، یہ نور کا دھماکہ ہی تو تھا جس نے مغرب و مشرق کی تقسیم کی نفی کرتے ہوئے "سپر پاور ہے خدا، لا الہ ٰ الا اللہ" کا الہیٰ شعار اور نظریہ پیش کیا اور مظلوم و ستم رسیدہ عوام کی صدیوں کی پیاس اور تڑپ ختم ہوئی، دین اور مذہب کے نام پہ سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دینے والی استعماری سوچ کو یکسر تبدیل کر دینے والے اس اسلامی انقلاب نے مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق الہیٰ سنتوں کے احیاء کی جدوجہد کرنے والوں کو ایک ایسی مثال پیش کی، جس کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اسلام ایک نامکمل دین ہے یا دین ایک افیون ہے یا دین میں سیاست جدید سے مقابلہ کا دم نہیں ہے۔
یہ انقلاب دنیا کے دیگر انقلابوں سے مختلف رہا ہے، اس انقلاب نے دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے، پہلے تو شائد ہی کوئی اس بات کا یقین کرتا ہو، مگر اب دوست و دشمن سبھی کہہ اٹھے ہیں، ویسے تو گذشتہ چالیس برسوں سے سازشوں کے ان گنت منصوبے انقلاب اسلامی کے خلاف استعمار اور ان کے نمک خواروں نے بنائے اور اربوں ڈالر خرچ کئے کہ کس طرح اس انقلاب کو ملیا میٹ کر دیں، مگر ناکام رہے اور گذشتہ آٹھ دس برسوں میں جس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ سب کیلئے حیران کن اور تہلکہ خیز ہے، جس طرح ایران کے ہمسائے عراق میں اور اس کے اتحادی ملک شام میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کو لا کر جنگیں چھیڑیں گئیں، ان جنگوں میں ایک طرف دنیا بھر کی ایجنسیاں اور خفیہ و ظاہری طاقتیں اور دوسری طرف ایران تھا، جس نے استعمار کے منصوبوں کو اتنی بری طرح ناکام بنایا کہ سب ہی کو کہنا پڑا ہے کہ انقلاب اسلامی نے اپنی سرحدوں میں اضافہ کر لیا ہے، کہاں مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے اور عراق و ایران و شام کی تقسیم کا امریکی منصوبہ، کہاں ایران سے لبنان تک مقاومت اسلامی کا کنٹرول اور استعماری قوتوں کو بدترین شکست کے بعد بھاگنے کا اعلان۔
انقلاب اسلامی حقیقت میں معجزات کا نام ہے، ایسے معجزات جنھیں دکھانے کیلئے فرزندان روح اللہ نے اپنی جانوں کے ان گنت نذرانے پیش کئے ہیں، فرزندان خمینی بھی کیا عجیب لوگ ہیں، جو اسلام ناب کی حقیقت کو جان لینے کے بعد شہادت کیلئے ایسے تڑپتے ہیں، جیسے ماہی بے آب تڑپتی ہے، ان کی زبانوں پہ ایک نعرہ لگتا ہے، جنگ جنگ تا پیروزی، یہ جنگ کو بھی نعمت بنا لیتے ہیں اور اپنے خون کی سرخی سے ایسی داستانیں رقم کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ انقلاب کی تحریک ہو یا انقلاب کے بعد اس کی حفاظت و بقا کی جدوجہد و جنگ، یہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ ہو یا ثقافتی میدان میں نافذ کی جانے والی یلغار اور جنگ، یہ فلسطین کے محاذ پہ لڑی جانے والی مظلومین کی جنگ ہو یا لبنان کے میدان میں اسرائیل کے خلاف لڑی جانے والی حزب اللہ کی جنگ، یہ داعش کے خلاف لڑی جانے والی عراق و شام کی جنگ ہو یا افغانستان میں عالمی استعمار کی غنڈہ گردی کو نکیل ڈالنے کی جنگ۔
فرزندان خمینی، کبھی حزب اللہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور کبھی فاطمیون کے نام سے میدان میں اترتے ہیں، کبھی زینبیون کی پٹیاں ماتھے پہ سجائے میدان میں اترتے ہیں اور کبھی خمینیون کا لباس زیب تن کیئے شہادت شہادت، سعادت سعادت کا شعار بلند کرتے تیرو تفنگ کیساتھ لیس ہو کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور یوں چالیس برس ہو جاتے ہیں، انقلاب کو محدود کرنے، اسے ایک شیعہ انقلاب بنانے اور ایران کو پابندیوں کی زد پہ نکیل ڈالنے کے خواہش مند مرے جا رہے ہیں کہ کیسے اس انقلاب کا راستہ روکا جائے، کیسے فرزندان روح اللہ کو ٹوکا جائے، مگر ناکامی سے دوچار ہیں اور اسی طرح خدائی مدد سے ناکامی ہی انکا مقدر بنے گی۔ اس لئے کہ اس انقلاب میں خلوص ہے، سچائی اور صداقت ہے، اس انقلاب میں قربانی و ایثار ہے، یہ انقلاب کوئی عام انقلاب نہیں، یہ کربلا کا پرتو ہے، یہ اکسٹھ ہجری کے وارثان حقیقی کا انقلاب ہے، اسے شکست سے دوچار کرنے کے خواب دیکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ انقلاب اس وقت نہیں روکا جا سکا تھا جب صرف 72 کیساتھ میدان میں اترے تھے، اب تو یہ انقلاب، یہ سوچ، یہ فکر، یہ نظام پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، اب اس کا راستہ روکنا ممکن ہی نہیں، اب اسے محدود کرنا شائد کسی کے بس میں ہی نہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی تحریک اور انقلاب و جدوجہد کا محور اس کے قائدین و رہنما ہوتے ہیں، جو اپنی محنت، خلوص، ان تھک جدوجہد اور ایچار کیساتھ کام کرکے کامیابیوں کو سمیٹتے ہیں، ان کا فکری طور پہ بالیدہ ہونا بھی ایک شرط ہوتی ہے اور ان کا سیاست دنیا کو سمجھنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی خوش بختی ہے کہ اسے جہاں امام خمینی جیسی رہبری نصیب ہوئی، وہاں اس انقلاب کیلئے کام کرنے والے دیگر قائدین کی بھی کمی نہیں تھی۔ آپ دیکھیں کہ یکے بعد دیگرے اس کے قائدین کو جس طرح نشانہ بنایا گیا، اس کے باوجود انقلاب کا قیام اور طرز تفکر میں کسی تبدیلی یا انحراف کا پیدا نہ ہونا کس قدر اہم ہے، امام خمینی کے عظیم ساتھی، ڈاکٹر بھشتی، ڈاکٹر جواد باہنر، صدر محمد علی رجائی اور 72 اراکین پارلیمان کا ابتدائی دنوں میں شہید کیا جانا اور بہت سے آیات عظام کو نشانہ بنانا، کسی آفت سے کم نہیں تھا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب کی جدوجہد میں اہل ایران نے غفلت نہیں کی اور قربانیوں سے گھبرائے یا پیچھے نہیں ہٹے۔
کسی شخصیت کی اہمیت اس طرح لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس سینکڑوں شہداء کے ساتھ قائد علامہ عارف الحسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی شخصیات کی شہادت کے بعد جو بحران آیا، ہم آج تک اس پہ قابو نہیں پا سکے اور اس نقصان کا ازالہ نہیں کرسکے، جبکہ اہل ایران نے انقلاب کی بقا کیلئے ایسی ان گنت قربانیاں پیش کیں اور ان کا راستہ نہیں روکا جا سکے۔ انقلاب آج بھی قربانیاں پیش کر رہا ہے، شام میں جا کر لڑنا اور جانوں کے نذرانے پیش کرنا درحقیقت انقلاب کو محفوظ کرنا ہی ہے، اہل ایران سمجھتے ہیں کہ ان کی ریڈ لائن کیا ہے، انہوں نے دشمن کو ایران میں میدان لگانے نہیں دیا جبکہ ان دنوں ایران کے ارد گرد تمام ممالک میں میدان لگ رہے تھے۔ ایران آج بھی پیروز اور کامیاب ہے، یہ فتح کی علامت ہے، یہ استقامت کی مثال ہے، یہ کامیابی کا نشان ہے، یہ مایوسیوں میں امید کی کرن ہے، یہ تاریکیوں میں روشنی کا منار ہے، اس انقلاب کے ساتھ ایک اور انقلاب کی نوید ہے، جو دنیا کو تاریکیوں اور ظلمتوں سے مکمل نجات دے گا، ہم اس انقلاب کے راہی ہیں، ہم اس انقلاب کے منتظر ہیں۔
انقلاب اسلامی حقیقت میں معجزات کا نام ہے، ایسے معجزات جنھیں دکھانے کیلئے فرزندان روح اللہ نے اپنی جانوں کے ان گنت نذرانے پیش کئے ہیں، فرزندان خمینی بھی کیا عجیب لوگ ہیں