امریکی جریدہ: سعودی حکمران اسلام کو تصور کو تدریجا تبدیل کررہے ہیں
ابنا۔ ماوراء البحار روزنامے "القدس العربی" اپنے ایک مضمون کا عربی ترجمہ شائع کیا ہے جس اس کے ایک اقتباس میں لکھا ہے: "تدریجی تبخیر ایسا مفہوم ہے جس کو کانٹینر بردار بحری جہاز انجن پر دباؤ کم کرنے، ایندھن بچانے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے، کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ اس مفہوم سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی کند رفتاری تیز رفتاری سے بہتر ہے"۔
در این اثناء دی ہل نامی جریدے نے کالم نگار جیمز زومیلٹ (James Zomalt) کے قلم سے القدس العربی کے مذکورہ اقتباس کو بطور تمہید نقل کرکے لکھا ہے: "یہ کشف کرنا بڑا آسان ہوچکا ہے کہ سعودی حکومت اسلام کو مسخ کرنے کے لئے اسی تدریجی تبخیر کے مفہوم سے فائدہ اٹھایا ہے تا کہ نئے بن سلمانی اسلام کو علاقے میں پذیرائی ملے اور مشرق وسطی میں استحکام بحال ہوجائے!!"
زومیلٹ نے اسلامی مفاہیم و تعلیمات میں تبدیلی اور اسرائیل کی قربت حاصل کرنے کے لئے بنی سعود کے کچھ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "جو لوگ عالم اسلام کے مسائل کی نگرانی کررہے ہیں ان کے لئے سعودیوں کے یہ اقدامات قابل غور ہیں"۔
زومیلٹ کے مطابق "بنی سعود نے مئی 2019ع میں دستاویزِ مکہ شائع کردی۔ یہ دستاویز "آل سعود کی عالمی اسلامی انجمن" کے سیمینار بعنوان "قرآن و سنت کی نصوص میں اعتدال پسندی کے اقدار" میں شریک 139 ممالک اور 27 مذاہب کے 1200 مندوبین کی طرف شائع ہوئی۔
زومیلٹ کا خیال ہے کہ دستاویز مکہ دین اسلام کی حقیقت اور اس کے عقائد میں بنیادی تبدیلیاں نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس دستاویز میں سفارش کی گئی ہے کہ "اسلام پسندی" اسلامی کی علامت کے طور پر متعارف نہ ہو۔ اس دستاویز نے پہلی بار تجویز دی ہے کہ انسانی حقوق کے لئے عالمی برابری اور مساوات کو تسلیم کیا جائے۔
زومیلٹ [بھی گویا محمد بن سلمان کی طرح خوش فہمی کا شکار ہوکر] لکھتے ہیں: "مکہ کی دستاویز کی بنیاد پر اسلامی مفاہیم و تصورات میں یہ تبدیلی اس لئے لائی گئی ہے کہ اس غالب قاعدے کو تبدیل کیا جائے کہ "مسلمان تمام انسانوں سے برتر و بالاتر ہیں"۔
ان کے کہنے کے مطابق، دستاویز مکہ دنیا بھر کے تمام مذہبی عقائد کو تسلیم کرتی ہے اور اس مسئلے کو بھی کہ ادیان و مذاہب کی رنگارنگی مختلف ادیان و مذاہب کے پیرکاروں کے درمیان نزاع اور جھگڑے کا جواز فراہم نہیں کرتی اور یوں اس دستاویز میں یہ تسلیم کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ "مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں"۔
زومیلٹ نے انکشاف کیا ہے کہ "دستاویز مکہ میں 1/6 ارب مسلمانوں کو نئی عقیدے کا قائل بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ دستاویز در حقیقت ایک تبدیلی کا آغاز ہے"۔
جیمز زومیلٹ کا خیال ہے کہ بنی سعود کی یہ دستاویز در حقیقت غیر مسلموں ـ بالخصوص یہودیوں ـ کے حوالے سے مسلمانوں کی ذہنیت تبدیل کرنا اور مسلمانوں کو یہودیوں کے ہم پلہ قرار دینا اور دلوانا چاہتی ہے"۔
جیمز زومیلٹ لکھتے ہیں: "سعودی عرب کے ایک وفد نے حال ہیں ہالوکاسٹ کی یاد منانے کے سلسلے میں منقعدہ تقریبات میں شرکی کی اور سعودی عرب کی "انجمن علمائے اسلام" کے سربراہ محمد بن عبدالکریم العیسی نے حاضرین سے خطاب بھی کیا اور اس نے ہالوکاسٹ کی تکریم کو "مقدس فریضہ اور فخر عظیم" قرار دیا اور نماز پڑھتے وقت اس مقام کی طرف رکوع اور سجدہ کیا جہاں 10 لاکھ یہودیوں کا قتل انجام پایا تھا!!!"۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت کے سابق وزیر قانون محمد بن عبدالکریم العیسی نے آج سے 25 دن قبل پولینڈ میں واقع آؤشوِٹس حراستی کیمپ (جرمن میں: Konzentrationslager Auschwitz انگریزی میں:Auschwitz concentration camp) میں حاضر ہو کر ہالوکاسٹ میں کام آنے والے یہودیوں کو خراج عقیدت پیش کیا!
العیسی نے سنہ 2018ع میں واشنگٹن میں واقع ہالوکاسٹ میوزیم کا دورہ کیا تھا۔ تجزیہ کاروں نے ان سعودی اقدامات کو یہودی ریاست کے ساتھ سعودی ریاست کے تعلقات کے نئے مرحلے کا آغاز قرار دیا ہے۔