حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے عید مقاومت یعنی 2000ء کی اسرائیل کے خلاف تاریخی فتح کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اندر اس وقت جو بھی سامراجی اقدامات انجام پا رہے ہیں، وہ سب سنچری ڈیل کا حصہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے منامہ میں چند دن بعد ہونے والی ایک کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر یہ کانفرنس تجارتی ایجنڈے اور غزہ پٹی کی اقتصادی بہتری کے بہانے منعقد ہو رہی ہے، لیکن اس کا بنیادی ہدف سنچری ڈیل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔ انہون نے فلسطینی تنظیموں سے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ نہ صرف اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں بلکہ اس کو ناکام بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔
سید حسن نصراللہ نے فلسطینی تنظیموں اور تمام عالم اسلام سے اپیل کی ہے کہ وہ سنچری ڈیل کے خلاف آواز اٹھائیں۔ سنچری ڈیل کے کیا نقصانات ہیں اور اس سے فلسطینی کاز کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کر رہے ہیں۔ سنچری ڈیل بنیادی طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کا وہ تاریخی مذموم منصوبہ ہے، جس کو انجام دیکر وہ امریکی تاریخ میں امر ہونا چاہتے ہیں۔ ٹرامپ اس اقدام سے صہیونی لابی کو مطمئن کرکے اگلے دور صدارت کے لیے بھی اس "بادشاہ گر" لابی کی ہمدردیاں اور حمایت لینا چاہتے ہیں۔ سنچری ڈیل کی تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر نے اس منصوبے کی انجام دہی کے لیے اپنے داماد کوشنر کو انتخاب کیا ہے، جو خود بھی ایک جانا پہچانا صہیونی ہے۔
کوشنر، مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے امریکی نمائندے جیسن گرین بیلٹ اور نتین یاہو اس منصوبے کے اصل ٹھیکیدار ہیں اور اس پر مسلسل کام جاری ہے۔ امریکہ سفارت خانے کو تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنا اس منصوبے کا حصہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے ایسے ایام میں فلسطینی تنظیموں اور عالم اسلام سے سنچری ڈیل کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کی ہے کہ جمعۃ الوداع یوم القدس کا دن قریب آرہا ہے۔ عالم اسلام اگر سید حسن نصراللہ کی اپیل پر مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس سال کے یوم القدس کو شایان شان طریقے سے منانے کا فیصلہ کرے تو مسلمانوں کا یہ اتحاد امریکہ، اسرائیل، آل سعود اور اس کے اتحادیوں کے منصوبے پر پانی پھیر سکتا ہے۔ مسلمان اگر مل جائیں تو امریکہ آئندہ سو سال تک بھی سنچری ڈیل کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔