تبریزی عوام کا قیام
جمہوری اسلامی ایران کی تاریخ میں 18/ فروری تبریزی عوام کے قیام کا دن ہے۔ اس دن وہاں کی عوام نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکلے اور اپنے اسلامی اور انسانی حقوق کا مطالبہ کیا۔ 18/ فروری میں کا قیام زنجیر کی پہلی کڑی تھی جس نے قم میں ہونے والے 9/ جنوری کے قیام کو پے در پے قیام سے جوڑ دیا۔
آیت اللہ قاضی طباطبائی کی صواب دید پر طے یہ ہوا کہ قم میں 9/ جنوری کو شہید ہونے والے شہداء کے چہلم کے موقع پر 9/بجے صبح چہلم کی مجلس میں شرکت کرنے کی غرض سے مسجد قزل لی میں جمع ہوئے اور پروگرام شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ اسی وقت تبریز کی کوتوالی 6/ کا سربراہ حق شناس نے دستور دیا کہ مسجد کے دروازہ کو بند کردیا جائے۔ لیکن جب دوبارہ وہاں آیا تو اس نے دیکھا کہ لوگ اسی طرح رفت و آمد کررہے ہیں تو اس نے اس بار توہین آمیز لہجہ میں کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ اس [نعوذ باللہ] طویلہ کو بند کردو۔ لوگوں کو مسجد کی توہین برداشت نہیں ہوئی اور اس کی اس نازیبا حرکت کا جواب دیا اور لوگوں کے درمیان سے ایک جوان اٹھا اور اس نے اس بے ایمان داروغہ کی گستاخی کا جواب دیا۔ لوگوں کے درمیان شور مچا گیا اور لوگ متحرک ہوگئے۔ اتنے میں پولیس اسٹیشن کی افواج نے گولیاں چلانی شروع کردیں۔
اس دن کا سب سے پہلا شہید محمد تجلائی ہے جو اس نابکار رئیس کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ جوش میں آگئے اور محمد تجلائی کے جنازہ کو ہاتھوں پر اٹھائے اور بڑے پیمانہ پر مظاہرہ شروع کردیا۔ لوگ مرکز شہر کی جانب روانہ ہوئے اور جوشیلے جوانوں نے سینما ہال اور شراب خانوں، رستاخیز پارٹی کے ٹھکانہ اور صادرات بینک جو بہائیوں کے قبضہ میں تھا؛ کو آگ لگا کر حکومت کی نسبت اپنے غصہ کا اظہار کیا اور "مرگ بر شاہ" اور "درود بر خمینی" کے نعرہ (18/ فروری کے واقعہ سے پہلے اس طرح کھل کر نعرہ نہیں لگایا گیا تھا) سے ریڈ لائن کو توڑدیا اور پورا شہر مظاہرہ کرنے لگا۔
کوتوالی کی افواج اس احتجاج کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ لا سکیں اور لوگوں نے کچھ دیر کے لئے شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ظہر کے قریب آذربائیجان کے ڈی ایم "آزمودہ" نامی شخص کے حکم سے فوج میدان میں آگئی اور ٹہرکوں سے بھرے سپاہیوں اور ٹینکوں کی مدد سے خون کی ندی بہادی اور میدان کو خونین بنادیا۔ دسیوں افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
اس موقع پر اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے امام خمینی (رح) کا خوبصورت ترین پیغام یہ تھا کہ آذربائیجان کے دیندار اور بہادر اور غیرتمند عوام کو میرا سلام! ان مردوں پر دورد جنہوں نے پہلوی خاندان کے خطرناک ترین انسان کے خلاف قیام کیا اور "مرگ بر شاہ" کے نعرہ سے اس کی بکواس اور فضول گوئی کو باطل اور غلط قرار دیا۔ تبریز کے عزیز مجاہدین زندہ باد رہیں کہ انہوں نے اپنی عظیم تحریک سے جھوٹوں کے منہ پر زبردست گونسا مارا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کس زبان سے تبریز کے عوام اور داغدیدہ ماؤں اور مصیبت زدہ باپ کو تعزیت پیش کروں اور کس بیان سے اس پے در پے قتل عام کی مذمت کروں۔