سن 42ش کی عید کے موقع پر جب امام خمینی (رح) کے شریعت کدہ پر امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کی مناسبت سے گذشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی امام (رح) کی طرف ایک مجلس عزا کا انعقاد ہوا تھا۔ امام اور مراجع کے عمومی عزاداری کے اعلان اور عید نوروز کی تحریم اور لوگوں کے وسیع پیمانہ پر عکس العمل ظاہر کرنے کی وجہ سے شاہ اور شاہی حکومت نے اپنی شکست اور ناکامی کا احساس کیا اور اس نے اس عزاداری کو خراب اور امام اور علماء کی توہیں کرکے اپنی ذلت اور خواری کی تلافی کرنے کا طریقہ نکالا۔ شاہ اس واقعہ کو لوگوں کے نام سے تمام کرنا چاہ رہا تھا۔ لہذا تبریز اور دیگر شہروں کے کچھ بد معاش اور غنڈے حکومت کے کارندوں کے ہمراہ سادہ لباس میں قم کے لئے روانہ ہوگئے۔
اس وقت میں بھی تبریز میں تھا لہذا قریب سے اس واقعہ کو نہیں دیکھا ہے لیکن اس مجلس میں موجود بہت سارے احباب نے مجھ سے نقل گیا ہے۔ احباب کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ کچھ ناآشنا اور نامعلوم لوگ مجلس میں آئے اور گوشہ و کنار میں جا کر بیٹھ گئے۔ اور انہوں نے بے موقع صلوات بھیج کر مقرر کی تقریر کو خراب کرنا چاہ رہے تھے۔ جب اس بات کی امام کو خبر دی گئی تو آپ مجلس میں آئے اور آپ کی آمد پر لوگ تعظیم اور تحترام میں کھڑے ہوگئے اور لوگوں نے آپ کا صلوات سے استقبال کیا۔ لوگوں کے خاموش ہونے اور دوبارہ تقریر کے شروع ہونے کے بعد یہ مزدور عناصر صلوات بھیج کر مجلس پڑھنے سے مانع ہوئے۔ اس وقت امام نے آقائے خلخالی کو بلایا اور ان سے کہا کہ لاوڈ اسپیکر پر جاکر اعلان کرو یہ لوگ ماموریت کے ساتھ آئے ہوئے ہیں اور مجلس کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور اگر ساکت نہ ہوئے تو اسی وقت تحریک آگے بڑھادوں گا اور حرم کی طرف جاکر لوگوں کو ضروری معلومات دے دوں گا۔ آقا خلخالی نے سخت لہجہ میں بیان کردیا اور جو لوگ مجلس کو خراب کرنے کا قصد رکھتے ہیں وہ جان لیں کہ حضرت آیت اللہ (خمینی ) نے فرمایا ہے کہ اگر خاموش نہ ہوئے تو ہم اپنا کام شروع کردیں گے اور حرم کی طرف جا کر لوگوں کو شاہ کے ناپاک ارادوں سے آگاہ کردیں گے۔ امام کی یہ دھمکی شاہ کے مامورین کے سکوت اور خوف کا باعث ہوئی۔