امام خمینی (رح) کی عملی سیرت میں انسانی کرامت
انسانی کرامت کی اصل و اساس حقوق بشر کی بنیادی ترین اصل اور قانون ہے اور قرآن کریم کے وحیانی تعلیمات سے ماخوذ ایک قانون ہے۔ کرامت اور بزرگی وہ صفت ہے جس سے خداوند عالم متصف ہے اور اس ذات نے اپنی موجودات کے درمیان صرف اور صرف انسان کو اس زیور سے نوازا ہے اور اسے موجودات عالم کے درمیان مکرم اور باعزت بنایا ہے۔ "ولقد کرمنا بنی آدم و حملناھم فی البر و البحر؛ اور ہم نے بنی آدم کو کرامت دی ہے اور اسے خشکی اور دریا میں حمل کیا ہے" یہ خداداد کرامت سارے انسانوں سے مخصوص ہے اور کسی ایک گروہ اور خاص اہل فضل سے مخصوص نہیں ہے۔ کرامت یعنی بزرگی اور پستی سے پاکیزگی کے معنی میں ہے۔
انسان خلقت کی بلند ترین موجود ہے اور اس کی حقیقت کا ادراک غایت درجہ ظرافت کا طالب ہے۔ روایات میں نفس کی معرفت کو خداوند عالم کی معرفت کے برابر قراردیا گیا ہے اور اس کے باوجود کہ اس انسان نے عوالم ہستی کے بہت سارے مسائل کو جان لیا ہے لیکن اپنی حقیقت اور اپنی اجتماعی اور شخصیتی زاویوں کو پورے طور پر پہچان نہیں سکا ہے اور اس کے یہ پہلو مجہول رہ گئے ہیں۔ یہاں تک ملائکہ بھی انسان کی ناقص شناخت کا اعتراف کرتے ہیں۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: "انی اعلم مالاتعلمون؛ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے"
خداوند عالم نے مختلف آیات میں انسان کا اس طرح تعارف کراتا ہے۔ "میں نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی" "اے زمین! میں اپنا جانشین اور نمائندہ بنایا" ہم نے اسے بہترین صورت میں خلق کیا ہے" " اور اسے پیدا کیا اور اسے بیان اور حکمت کی تعلیم دی"
خداوند عالم نے آدم اور آپ کی اولاد کو کریم اور صاحب عظمت جانا ہے اور انسان کو کرامت و بزرگی دی ہے اور دیگر زمینی موجودات کے مقابلہ میں انسان کو بلند ترین مقام تک پهونچایا ہے تا کہ انسان اپنی قیمتی مقام و مرتبہ کو بہتر طریقہ سے پہچانے اور اپنی کرامت کو گندگی اور کثافت سے آلودہ نہ کرے۔ طاقتوروں اور مالداروں کا مطیع نہ بن جائے اور اپنی خداداد کرامت کو معمولی اور حقیر خواہشات کی نذر نہ کردے اور تملق و چاپلوسی کی بھینٹ نہ چڑھادے۔
انسانی کرامت فردی اور اجتماعی دو رخ سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ فردی پہلو زیادہ تر انسان کے اخلاقی اور شخصیتی پہلو سے مربوط ہوتا ہے کہ اجتماعی اسباب اس کے عروج و زوال میں اساسی کردار رکھتا ہے اور اس کی کرامت معاشرہ کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی نظام سے کسی حد تک مربوط ہے۔ لیکن خالق یکتا سے اس کا روحانی اور معنوی رابطہ اور اس کا صفات الہی سے متصف ہونا اس کی کرامت کی بنیاد ڈال سکتا ہے۔
انسانی کرامت کے فردی جلوے
1۔ عقل و خرد کا استعمال:
سب سے پہلی خصوصیت جو انسانی کرامت کا موجب ہے وہ اس کی عقل ہے کہ خدا نے اس سے زیادہ محبوب اور عظیم نعمت اپنے بندوں کو نہیں دی ہے۔ انسان کا خدا کی اس عظیم نعمت کا مالک ہونا اس کو کرامت عطا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔
2۔ ایمان و اعتقاد:
ایمان و اعتقاد رکھنا فرد کے ہزاروں نامعلوم راستوں میں سے اپنے راہ کو معین کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ یہ امر اسے فکری مضبوطی اور کرامت عطا کرتا ہے۔ اس طرح سے کہ بے ایمان اور آئیڈیالوجی سے خالی فرد بے نام و نشان اور مجہول ہے کہ جس نے اپنے خدا کو گم کردیا ہے۔ "نسوا اللہ فانساکم انفسھم؛ ان لوگوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کو بھلادیا"
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں تعیین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان اپنی خداداد کرامت اور عظمت و شان کا ادراک کرے اور اس ادراک کی روشنی میں اپنا صحیح راستہ طے کرلے تو یقینا اس نے اپنی کرامت اور خداداد عظیم نعمت کو پالیا ہے لیکن اس کے لئے عقل و شعور کے استعمال کی ضرورت ہے اور اچھے و برے میں تمیز کرنے اور صحیح و غلط کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے، انسان اپنی کرامت کی بدولت خلیفة اللہ اور رسول اللہ ہے۔ لیکن شرط اپنی معرفت حاصل کرنا اور اپنے اندر چھپے خزانوں کو دریافت کرکے اس کا صحیح استعمال کرنا ہے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایمان و اعتقاد کے ساتھ عقل و خرد کے استعمال کا سلیقہ دے۔آمین۔