انسان ایک اجتماعی اور سماجی موجود ہے جو معاشرہ میں دیگر انسانوں سے معاملہ کرے اور معاشرت رکھے اور آپس میں زندگی گزارے۔ اصولی طور پر انسان اس فطرت کے پیش نظر جو خداوند عالم نے اس کے وجود میں رکھا ہے ایک ایسی موجود ہے جو تنہائی اور اکیلے پن سے خوفزدہ اور ہراساں ہے اورافراد کے درمیان زندگی گزارنے پر مائل ہے۔ اسی وجہ سے کچھ اصول و ضوابط کی اپنی زندگی میں رعایت کرے۔ اس راہ میں انسانی کرامت کے لئے جو چیز چیلنج کرتی ہے ، اخلاق اور حسن معاشرت کا نہ ہونا ہے۔
رسولخدا (ص) نے عمل اور نظر دونوں میدانوں میں انسانوں اور انسانی سماج کو انسانی، اخلاقی اور معاشرتی اصول، قوانین اور معیاروں کی رعایت کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور انسانوں کو بداخلاقی کے مہلک گڑھے اور گرداب میں گرنے، اجتماعی ہر و مرج، انسانی فضیلت کی رعایت کرنے میں لاپروائی سے منع فرمایا ہے۔ رسولخدا (ص) اس میدان میں انسانی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے اور معیاروں پر عمل کرنے میں بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہیں۔ اس مدعی پر بہترین گواہ قرآن کی آیت ہے کہ ارشاد ہوتا ہے: "و انک لعلی خلق عظیم؛ بیشک آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔"
ابن شہر آشوب اپنی کتاب مناقب شہر آشوب میں رسولخدا (ص) کی اس طرح توصیف کرتی ہیں:
پیغمبر خدا (ص) مبعوث ہونے سے پہلے پیغمبروں کی 20/ خصلتوں کے مالک تھے کہ اگر کوئی فرد ان میں سے ایک خصلت رکھتا ہو تو وہی ایک خصلت اس کی عظمت پردلیل ہے چہ جائیکہ وہ شخص جس کے اندر تمام خصلتیں ہوں۔ آنحضرت (ص) پیغمبر امین، صادق، ماہر، شریف، نجیب، بلند مقام، سخنور، عقلمند، صاحب فضیلت، عبادت گذار، دنیا سے بے توجہ، سخی، شجاع و دلیر، جنگجو، قانع، منکسر مزاج، حلیم و بردبار، مہربان، غیور، صابر، صلح پسند اور نرم طبیعت انسان تھے۔
حضرت علی (ع)، رسولخدا (ص) کے خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ سب سے زیادہ سخی، شجاع، صادق، عہد و پیمان کو سب سے زیادہ وفا کرنے والے اور نرم طبیعت انسان تھے۔
پیغمبر اکرم (ص) انسان کی فضیلت اور برتری مادی امور میں نہیں جانتے تھے، بلکہ آپ انسان کی کرامت کی بنیاد تقوی اور پرہیزگاری اور پاک و پاکیزہ زندگی میں جانتے تھے اور خود بھی اسی قانون کی روشنی میں زندگی گزارتے تھے۔
روایت کے مطابق: آنحضرت (ص) ایک دن بورئے پر لیٹے ہوئے تھے اور وہ بوریا آپ کے پہلو سے دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں نے حضرت سے کہا: کاش بستر فراہم کرلیتے۔ حضرت (ص) نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا کام، میری اور دنیا کی حکایت اس سوار کی ہے جو ایک دن شدید گرمی میں راستہ چلتا ہے اور ایک دن کسی پھل درخت کے سایہ میں گذارتا ہے اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا ہے۔
رسول اکرم (ص) نے دنیا طلب، شہوت رانی، حد درجہ لذت حاصل کرنے کو انسان اور انسانیت کے لئے عظیم خطرہ بتایا ہے اور یہ امور انسانی کرامت کی بنیادوں کو ویران کردیتے ہیں۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: بد اخلاقی عمل کو تباہ کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو فاسد اور خراب کردیتا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا ہے: خدا کے کسی بندہ کو ذلیل و خوار نہ سمجھو کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کون خدا کا دوست اور محبوب ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے: کسی مسلمان کو حقیر مت سمجھو کیونکہ صغیر (چھوٹا) خدا کے نزدیک بڑا ہے۔ یعنی کسی انسان کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھو سارے انسان خدا کے نزدیک قابل احترام ہیں۔