عورت قرآن کریم کی روشنی میں باکرامت مخلوق
سنت اور روایات عورتوں کے حقوق اور صنف نسواں کے حال کی رعایت کے فرمان سے بھری پڑی ہے، قرآن کریم میں ازدواج ، شادی بیاہ، مرد اور عورت کے حقوق، مرد اور عورت کے درمیان اختلاف کے بارے میں بہت ساری آیات موجود ہیں، ہمبستری سے لیکر دیگر مسائل تک سب کچھ موجود ہے اور ان تمام چیزوں کے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں۔
شاید اس کی وجہ یہی ہو کہ رسولخدا (ص) کی نظر میں اس وقت دغدغہ عورت کا مسئلہ تھا؛ کیونکہ رسولخدا (ص) ایسے معاشرہ میں مبعوث ہوئے تھے جس میں عورتوں کو بہت کم حقوق دیئے جاتے تھے ، خواہ میراث ہو یا اجتماع میں جانا اور خانوادگی مسائل ہوں۔ قرآن کریم میں بھی ہے کہ بہت سارے عربوں کی نظر میں عورت ننگ اور عار کا باعث تھا، بعض لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے اور اگر زندہ بچ بھی جاتی تھی تو اسے بہت کم حقوق دیتے جاتے تھے۔ اگر رسولخدا (ص) کے دور میں دیگر اقوام م ملل کی تاریخ کا مطالعہ کرین مثلا روم اور ایران کے قانون میں عورت کی عربوں کے قانون کی نسبت بہت اچھی حالت نہیں تھی۔ جب ارسطو جیسا عظیم فلسفی عورت کے سلسلہ میں اس طرح پست نظریہ رکھتا ہے کہ وہ عورت کو آدم زار ہی نہیں جانتا۔
خلاصہ اس زمانہ میں موجود ادیان اور حقوق نظام عورت کے سلسلہ میں مثبت نظریہ نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت کے موجودہ تمام قوانین کے مقابلہ میں قرآن نے جو قانون پیش کیا ہے وہ عورتوں کے لئے ترقی پذیر قوانین ہیں۔ قرآن کریم میں نازل شدہ خوبصورت ترین آیت میری نظر میں یہ ہے کہ "و من آیاتہ خلق ازواجکم من انفسکم" پہلی بات یہ ہی که عورت آیات الہی بتائی گئی ہے۔ "لتسکنوا الیھا؛ عورت انسان اور زندگی کے سکون کا باعث ہے"۔ "و جعل بینکم مودة و رحمة؛ تمہارے اور تمہاری عورتوں کے درمیان رحمت اور مودت قائم کی"۔ یعنی خداوند عالم اسے قانون تکوینی سے بیان کررہا ہے۔ لہذا تم اس تکوینی قانون سے سر پیچی نہ کرو بلکہ مودت، سکون اور رحمت کے مسئلہ کو اپنی زندگی میں محفوظ رکھو۔ قرآن کریم سکون، محبت اور رحمت کا ذکر کررہا ہے، یعنی ازدواج اور شادی بیاہ سے یہ تینوں چیزیں حاصل ہوں۔
قانون خلقت یہ ہے کہ ایک ازدواج ہو دوسرے ازدواج کے ساتھ ساتھ محبت اور لگاؤ وجود میں آئے۔ دوسری جگہ پر مرد اور عورت کو ازدواجی زندگی میں آنے کے بعد ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ یعنی اس کے ذریعہ تم بھی محفوظ ہوجاؤگے اور اس کی حفاظت بھی کروگے۔ قرآن کریم اور سنت معصومین (ع) مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے احترام کو بیان کرتی ہیں اور ایک دوسری کی حرمت اور عزت کی پاسداری کی تاکید کرتی ہیں۔ واضح ہے کہ جب آپ اپنے مد مقابل کا احترام کریں گے تو وہ بھی آپ کا احترام کرے گا خصوصا جب دونوں برابر کے ہوں یا دونوں ایک ردیف میں ہوں۔ عورت کا تعلق ایک نازک صنف سے ہے اگر آپ نازک صنف اور چیز کی جتنی حفاظت کریں گے اتنی ہی آپ کی عزت، عظمت اور شان و شوکت میں اضافہ ہوگا اور گھر سے سماج تک آپ کی قدر و منزلت بڑھے گی اور دنیا کو امن و سلامتی، عزت و احترام کا پیغام دیں گے۔ ہر بچہ اپنے گھر سے سب کچھ سیکھتا ہے اگر گھر کا ماحول مدرسہ بن جائے اور ایک روحانی اور الہی فضا قائم ہو تو پھر سماج اور معاشرہ کو انسان ملے گا۔ گھر سے ہی انسان باہر کی دنیا میں جاتا ہے اور اپنے اچھے اور برے اخلاق اور عادات و اطوار سے اپنے خانوادہ کی پہچان بنتا ہے۔
لہذا ہم سب مل کر اپنے گھر کا ماحول اچھا بنائیں اور اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہوں تا کہ دوسری اقوام کے لئے درس زندگی ہو۔