کس طرح سے رسولخدا (ص) نے دعوت اسلام کو عام کیا ؟
رسولخدا (ص) کا نام "محمد" اور آپ کے والد کا نام "عبداللہ"، ماں کا نام "آمنہ" ہے۔ آپ کی کنیت "ابوالقاسم" اور "ابو ابراہیم" ہے۔ رسولخدا (ص) کے القاب رسول اللہ، نبی اللہ، مصطفی، محمود، نور، رحمت، نعمت، شاہد، مبشر، منذر، مذکر، یس اور طہ ہے۔ آپ (ص) کا منصب اللہ سبحانہ تعالی کے آخری پیغبر (ص) دین اسلام میں سب سے پہلے معصوم اور اسلامی حکومت کے بانی ہیں۔ توریت اور بعض دیگر آسمانی کتابوں میں آپ (ص) کا اسم گرامی "احمد" ہے۔ آپ (ص) 17/ ربیع الاول بروز جمعہ سن 570 ء کو حجاز کی سرزمین مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اب ہم یہاں پر آپ (ص) کی سیاسی زندگی کے بارے میں کچھ عرض کررہے ہیں۔
رسولخدا (ص) بعثت کے بعد علم اور آگہی، زندگی کے بامقصد ہونے، انسانوں کے خلقت اور خدا کے نزدیک یکساں اور برابر ہونے اور حکومت اسلامی میں سب کے حقوق کے برابر ہونے، خاندانی، قومی اور قبائلی فخر و مباہات کو باطل قرار دینے اور نسلی برتری کو ختم کرنے، گورے اور کالے کے فرق کو مٹانے، عورتوں کی بلند و بالا اہمیت بتانے اور مردوں کے ذمہ ان کے قطعی حقوق کے بارے میں عرب سماج کے درمیان تقریر اور لوگوں کے ذہنوں کو ان خرافات سے دور رکھنے کی تاکید کرتے رہے۔ رسولخدا (ص) کے یہ پیغامات اور آپ کی تعلیمات، قبیلوں کے رئیسوں اور بزرگان کو بیحد ناگوار گذریں بلکہ رسولخدا (ص) کے انسانی مرکز سے ہم آہنگ بھی نہیں تھے۔
مکی زندگی کے ان 13/ برسوں میں آیات الہی کے قالب میں امت مسلمہ کے اخلاقی اور اعتقادی اساس کی بنیاد ڈالی۔ اس دور میں رسولخدا (ص) نے اپنی خفیہ اور علنی دعوت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اس کے بعد علی الاعلان دین اسلام اور انسانوں کی ہدایت کی کھل کر تبلیغ شروع کردی اور لوگوں کو زندگی گذارنے، ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور اتحاد و اتفاق اور بھائی چارہ کی دعوت دی اور لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر نور اور روشنی کی جانب لانے کی مہم شروع کردی۔ اپنے اس مشن کو آگے بڑھانے اور دین الہی کے پیغامات، احکام اور اصول کو عام کرنے میں کفار قریش اور دشمنان انسانیت کی جانب سے بے شمار اذیتوں اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ کے نبی بحمت نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ اس راہ میں ساحر و مجنون کہا گیا آپ نے برداشت کیا۔ جب کفار مکہ اور قریش کی جانب سے آپ کی جانب سے آپ کو بے انتہا اذیتیں پہونچنے لگیں اور آپ (ص) کے اصحاب و انصار کو ستایا جانے لگا تو آپ نے مومنین کو اس افسوسناک صورتحال سے نجات دلانے کی ٹھان لی۔ بنابریں مسلمانوں کی نجات کے لئے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا خدائی حکم بہترین اور مناسب ترین راہ تھی۔
اس بنیاد پر مدینہ کو اسلام میں سب سے پہلا مرکز جاناجا سکتا ہے۔ اس حکومت کے سربراہ خود رسولخدا (ص) تھے۔ اس بنیادپر کہ حکومت اسلام کے عالگیر پروگرام کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر آیات الہی تاکید بھی کرتی ہیں اور یہ زمان و مکان اور انسانوں کے درمیان کالے گورے اور ملکی فرق سے سازگار بھی ہے۔ لہذا آپ (ص) نے حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت ہوئے کہ رسولخدا (ص) جدید پروگراموں اور اقدامات کو عملی کریں۔ لہذا حکومت اسلامی کے ابتدائی مقاصد کو مندرجہ ذیل امور میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1. مسلمانوں کے درمیان سیاسی، فوجی اور سماجی رابطہ کو مضبوط بنانا
2. مہاجرین کے اقتصادی مسائل کا حل
3. مدینہ اور اس کے اطراف و جوانب میں اسلام کی توسیع اور آخر کار اسلام کی عالمی دعوت
اس کے علاوہ اپنے اسلامی اغراض و مقاصد کو عملی کرنے میں موانع و رکاوٹوں کو دور کرنے کی جانب بھی توجہ دی اور اس کے لئے مزید تین کام کئے:
1. سیاسی، عبادی، اجتماعی اور حکومتی مرکز کے عنوان سے مدینہ میں مسجد بنائی
2. انصار و مہاجرین کے دریمان عقد اخوت کو عملی کیا
3. مدینہ میں اسلامی نظام کی حفاظت کہ اصلی دشمنوں کو نشانہ بنایا۔ اطراف مدینہ کے وحشی قبائل جن کی زندگی جنگ و جدال اور قتل و غارت گری پر تھی انہیں اپنی خاص روش سے ان کو ایک بہترین موقع میں تبدیل کردیا۔ ان میں سے جن کے اندر میں بھی صلاح اور ہدایت کے آثار دیکھے ان سے معاہدہ کیا اور جو اصلاح پذیر نہیں تھے انہیں اپنی روش سے جدا رکھا۔
4. اشراف مکہ کو کنٹرول کیا
5. رسولخدا (ص) نے یہودیوں سے بھی مدارا کیا
6. منافقین سے بھی بچاؤ کی تدبیر کی
خلاصہ اس طرح سے آپ (ص) نے اسلام کا پوری دنیا میں پرچم لہرایا۔